ملتان( نمائندہ نوائے وقت)پاکستان کی معیشت میں کپاس کی فصل کو خاص اہمیت حاصل لیکن گزشتہ کئی برسوں سے کپاس کی پیداوار میں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے اگرچہ ہر حکومت کپاس کی پیداوار میں اضافے کے لئے اقدامات تو کرتی ہیںلیکن اس کے باوجود وہ خاطرخواہ نتائج دیکھنے کو نہیں ملتے جو ملکی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ضروریات پوری کر سکیں۔ان خیالات کا اظہارمثالی کاشتکار، معروف صنعت کار اور سابق صدر چمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری ملتان و ڈیرہ غازی خان خواجہ جلال الدین رومی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔انھوں نے کہا ایک طرف ٹیکسٹائل انڈسٹری کے کاروباری حجم میں اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب کپاس کی فصل کی کاشت کم ہو رہی ہے۔ گزشتہ دس سال میں ٹیکسٹائل انڈسٹری ڈبل ہونے کی وجہ سے پاکستان کو اربوں روپے کپاس باہر سے منگوانی پڑ رہی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہم آئی ایم ایف سے ساڑھے چھ ارب ڈالر کا قرضہ لینے جا رہے ہیں جبکہ کپاس اور دیگر فصلوں کی مد میں ہم آٹھ ارب ڈالر ہر سال خرچ کر تے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ بیرونی اداروں سے قرضہ لینے کے بجائے کاشتکاروں کو بیج، پانی اور بجلی کی مد میں مراعات دی جائیںاگر ہماری ذراعت اپنے پاوں پر کھڑی ہو جائے تو ہمیں آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔کپاس کی فصل کے اخراجات زیادہ ہیں اس کی قیمت کو عالمی سطح سے لنک کیا جائے۔انہوں نے مزید کہا فوری طور پر سات ہزار روپے پھٹی کی قیمت فی من مقرر کی جائے اسی طرح ٹیکسٹائل سیکٹر کو بھی چاہیے کہ وہ کپاس کے کاشت کاروں کو سپورٹ کرئے۔خواجہ محمد جلال الدین رومی نے کہا ماضی میں برآمد کرنے والا ملک پاکستان آج چار ارب ڈالر سے زیادہ کی کپاس باہر سے منگوارہاہے۔کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اس وقت سفید ہاتھی ہے اس کوفعال کرکے ریسرچ اور نئے بیج متعارف کرانے والوں کوخصوصی مراعات دی جائیںاسی طرح سیڈ کارپوریشن کا مکمل آڈٹ کرایاجائے۔ معروف صنعت کار نے ایک اہم مسئلہ کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا فصلوں کی زونگ کی خلاف ورزی کرکے کپاس کی فصل کوتباہ کردیاگیا۔کپاس کے علاقوں میں گنے کی پیداوار کو جان بوجھ کر ترقی دی گئی۔انھوں نے وزیراعظم اور وزیر اعلی سے درخواست ہے کہ کاشتکاروں کو بچانے کے لیے کپاس کا ایک ایمرجنسی پروگرام شروع کریں۔اس کے علاوہ بلوچستان کے قابل کاشت رقبہ پر توجہ دے کر اس پر کپاس کاشت کرائیں۔ خواجہ محمد جلال الدین رومی نے کہا حکومت کو چاہیے کہ وہ معیاری بیج کی فراہمی کے اقدامات اٹھائیں 40فیصد لیبر ٹیکسٹائل سیکٹرسے وابستہ جبکہ 90فیصد برآمدات ٹیکسٹائل سیکٹر کی ہیں۔ انھوں مزید کہا حکومت کوبھی میچنگ گرانٹ دے کر ریسرچ کے اداروں کواہداف دینے چاہیے۔حکومت کے ساتھ زراعت کی ترقی خصوصاً کپاس کی پیداواربڑھانے پر ماضی میں بہت سی میٹنگز ہوئی لیکن نتیجہ صفر نکلا۔ 15ملین گانٹھ سے زیادہ پیداوار کا ہدف مقرر کرکے اس کا حاصل کرنے کی جنگی بنیادوں پر کام کیا جائے۔ سابق صدر چمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری ملتان و ڈیرہ خواجہ جلال الدین رومی نے کہا اپٹما کے عہدیداران کپاس کی ہر قسم کی فصل کو مارکیٹ کے مطابق خریدنے کے پابند اور اپٹما کوالٹی کاٹن کی کاشت کے لیے مل کر کام کرے اور کاشتکاروں کو مراعات بھی دے۔