غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوجیوں نے جنوبی کشمیر کے ضلع اسلام آباد میں محاصرے اور تلاشی کی پرتشدد کارروائی شروع کی ہے جس سے مقامی لوگوں کو شدیدمشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔بھارتی فوجیوں اور پیراملٹری فورسز کے اہلکاروں نے جموں خطے کے ضلع راجوری میں کیساری سمیت مختلف علاقوں میں اتوار کو مسلسل 9ویں روز بھی نام نہاد سرچ آپریشن جاری رکھا۔ ضلع کے کئی دیگر علاقوں میں مسلسل 25ویں روز بھی سرچ آپریشن جاری رہا۔ بھارتی فوجیوں، پیراملٹری فورسز اور پولیس اہلکاروں نے رواںماہ کے آخر میں سرینگر میں بھارتی حکومت کی میزبانی میں ہونیوالے جی 20 اجلاس سے قبل حفاظتی اقدامات کے نام پر علاقے کے لوگوں کا جینا حرام کررکھاہے۔ وادی کشمیر کے ہر شہر اور قصبے میں گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں اور لوگوں کو ہراساں کیاجارہا ہے۔
بے شک جی 20 گروپ کا مقصد عالمی معیشت کے حوالے سے دنیا کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنا ہے مگر اسکے رکن ممالک کو بھارت کی میزبانی میں مقبوضہ کشمیر میں ہونیوالے اجلاس کیلئے ہرگز آمادہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ مقبوضہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ ہے جہاں بھارت نے غاصبانہ قبضہ کرکے کشمیریوں پر ظلم و تشدد کا بازار گرم کیا ہوا ہے اور عالمی دبائو کے باوجود 75 سال سے اس مسئلہ کو حل نہیں ہونے دے رہا۔ بھارت اپنی میزبانی میں جی 20 کا اجلاس مقبوضہ کشمیر میں اس لئے منعقد کرانا چاہتا ہے تاکہ دنیا کو یہ باور کرا سکے کہ مقبوضہ کشمیر متنازعہ علاقہ نہیں۔ اگر وہ اس اجلاس کے انعقادمیں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس سے اسکے بیانیے کو تقویت ملے گی اور کشمیری عوام کی نہ صرف دل شکنی ہوگی بلکہ انکی 75 سالہ جدوجہد بھی اکارت جا سکتی ہے جس کیلئے وہ اپنی جانوں اور عزت مآب خواتین کی عصمتوں کی قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں۔ اسی تناظر میں کل جماعتی حریت کانفرنس نے مودی حکومت کے مذموم اقدام کے خلاف 22 مئی کو مقبوضہ جموں و کشمیر اور آزاد جموں و کشمیر میں مکمل ہڑتال کی کال دی ہے۔ جی 20 کے رکن ممالک بالخصوص سعودی عرب ‘ ترکیہ اور چین کو اس اجلاس کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے اور تمام رکن ممالک کو بھارت پر زور دینا چاہیے کہ جب تک بھارت کشمیریوں پر ظلم بند نہیں کرتا اور مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی حل کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا‘ مقبوضہ کشمیر میں بین الاقوامی سطح کا کوئی بھی اجلاس یا سیمینار منعقد نہیں کیا جائیگا۔ بھارت کی اس سازش کیخلاف اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی ) کو بھی بھرپور آواز اٹھانی چاہیے ۔