پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے ردعمل میں جس سفاکی کے ساتھ ریاستی ادارے کی حساس عمارتوں‘ تنصیبات اور دوسری سرکاری اور نجی املاک کا حشر نشر کیا گیا وہ بادی النظر میں کسی دشمن ملک کے ایماء پر کی گئی کارروائی ہی نظر آتی ہے۔ اسی تناظر میں نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میں 9 مئی کے افسوسناک اور المناک واقعات کے حوالے سے پہلے سے طے شدہ کسی منصوبہ بندی کا حوالہ دیا۔ انکے بقول یہ واقعات عمران خان کی گرفتاری کے ردعمل کی آڑ میں ملک دشمنوں کے مقاصد کی تکمیل کیلئے رونما کرائے گئے جو حقائق و شواہد سے اس گھیرائو جلائو اور تخریب کاری کی پہلے سے موجود منصوبہ بندی کی تصدیق کرتے ہیں۔ انکے بقول ریاستی ادارے کی حساس عمارات اور تنصیبات پر ایک ہی جتھے کی جانب سے یکے بعد دیگرے حملہ پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔ یہ لوگ اس کام کیلئے باقاعدہ تربیت یافتہ اور گھیرائو جلائو اور تخریب کاری کے سامان سے لیس تھے اور انکی گھنائونی کارروائیوں کا مقصد ملک دشمنوں کو ملک کی حفاظت کے ذمہ دار ریاستی ادارے کے کمزور ہونے کا تاثر دینا تھا۔ اب تک 9 مئی کے تخریب کاری کے واقعات میں ملوث تین ہزار 289 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جن میں جی ایچ کیو پر حملہ کرنیوالے 76 ملزمان اور کورکمانڈر ہائوس کو نذر آتش کرنیوالے 340 ملزمان بھی شامل ہیں۔ ان عناصر نے ایک سیاسی لیڈر کی گرفتاری کیخلاف ردعمل کی آڑ میں ملک اور سسٹم کی سلامتی کیخلاف جو گھنائونا کھیل کھیلا اسکی بنیاد پر وہ کسی قانونی رعایت یا نرمی کے ہرگز مستحق نہیں۔ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اب خود بھی ان عناصر سے لاتعلقی کا اعلان کررہے ہیں جبکہ درحقیقت پی ٹی آئی کے بعض نمایاں عہدیداران ہی بلوائیوں کو کورکمانڈر ہائوس بلواتے اور انکی تخریبی کارروائیوں کی قیادت کرتے رہے۔ اگر ایسے انتشار اور تخریب کاری کی حوصلہ افزائی کی گئی تو پھر کل کو کوئی بھی جتھہ بند ہو کر اس ارض وطن کا تورابورا بناتا نظر آئیگا۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب نے 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہر فرد کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے اور اسے کیفرکردار کو پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا ہے تو اس عزم کی تکمیل سے ہی دہشت گرد اور تخریب کار عناصر کو مکمل نکیل ڈالی جا سکے گی۔ ایسے عناصر کو سیاست کے لبادے میں چھپانے کی بھی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے اور ان پر اور انکے سرپرستوں اور سہولت کاروں پر قانون کی عملداری ہی وقت کا تقاضا ہے۔