تاریخِ اسلام میں صلح حدیبیہ کو مسلمانوں اورغیر مسلموں کے ما بین نہ صرف پہلے باقا عدہ معاہدہ کے طور پر جانا جاتا ہے بلکہ اسکی اہمیت کے پیشِ نظرقران نے اس معاہدہ کو ’’فتح مبین‘‘قرار دیاہے۔ یہ صلح نامہ ہجرت ِمدینہ کے چھٹے سال مکّہ سے نو میل دور حْدیبیہ کے مقام پر وقوع پزیر ہوا۔پندرہ سو کے لگ بھگ صحابہ کے ساتھ رسولِ پاک عمرہ کی ادائیگی کیلئے مکّہ کی جانب عازمِ سفر ہوئے۔ ہم رقابانِ رسول میں بطور مسلمان پہلے عمرہ کی ادائیگی کا جذبہ دیدنی تھا۔جب قافلہِ رسول حدیبیہ کے مقام پر پہنچا تواطلاع ہونے پر قریش نے اسے آگے بڑھنے سے روک دیا۔ بھلے مسلمان سوائے سامانِ سفر کے اپنے ساتھ کچھ نہ لائے تھے، اورنیک نیتی سے صرف عمرہ کی ادائیگی ان کا مقصودِ سفر تھا۔ لیکن قریش کسی بھی صورت انہیں مکہ میں قدم رکھنے کی اجازت دینے کوتیار نہ تھے۔ صلح کی شرائط اتنی کڑی اور دل شکن تھیں کہ آج ایک عام قاری بھی جب انہیں پڑتا ہے تو مسلمانوں کی بے بسی پر اس کا خون کھولتا ہے۔ اسی لئے اس معاہدہ پر اصحابِ رسول بھی کافی آزردہ خاطر دکھائی دئیے۔ تاہم آپ کے سمجھانے پر سب راضی ہوگئے اورآپ نے صحابہ کوقربانی کرنے اور سر منڈوانے کا حکم دیا، جس پر سب نے بلا چون و چراں عمل کیا۔
قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے صلح حدیبیہ کو ہمیشہ محض ایک انفرادی واقعہ کے طور پر پڑھا اور سمجھا ہے۔انہوں نے کبھی اسے تجزیاتی نظر سے نہ دیکھا اور نہ ہی تجزیاتی بصیرت سے اس پرغور کیاہے۔یہ معاہدہ مسلمانوں کو اپنی زندگیوں میں واضع دعوتِ عمل دیتا ہے کہ جب حالات نہ مساعد ہوں، اور نقصان ہو جانے کا اندیشہ یقینی ہو تو صلح کر کے آگے بڑھنا قرینِ عقل ہو گا۔ یہ اسی صلح کے باعث ہے کہ نبیِ رحمت اپنی تربیت یافتہ، بے سرو ساماں افرادی قوت کو نہ صرف واپس مدینہ میں بخیرو خوبی لانے میں کامیاب ہوئے بلکہ دشمن سے مستقبل میں مقابلہ کی بھر پور تیاری کا موقع دستیاب کر لیا۔ یہی صلح حدیبیہ ایک پتہ توڑے یا خون کا قطرہ بہائے بغیر نہ صرف فتح مکہ کی شکل میں کام آئی، بلکہ مسلمانوں کو ایسے حالات میں ایک جامع نصاب میسر کر گئی۔
اگر ہم تاریخِ اسلام میں’’ سنت صلح حدیبیہ‘‘ پر عمل کا جائزہ لیں تودل بہت دکھتاہے۔ خواہ معاملہ مسلمان ریاستوں کے باہمی اختلاف کا ہو یا اہلِ ایمان کے ذاتی معاملات کا،ہم صلح حدیبیہ کے اسباق کے اطلاق کو در خور اعتنا نہیں سمجھتے۔ہم اپنے مخالف کو شکست دینے کی ذہنی تیاری کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں اور صلح کی طرف تب آتے ہیں جب پْلوں کے نیچے سے ناقابلِ واپسی پانی گزر چکا ہوتا ہے۔
تاریخِ عالم میں جن قوموں نے صلح حدیبیہ سے سبق سیکھا ہے اْن کی مثالیں ہمارے سامنے جلی حروف میں لکھی ہوئی ہیں۔جنگ عظیم دوئم بنیادی طور پر دو گروہوں کے درمیان وقوع پزیر ہوئی۔ ایک طرف محوری طاقتیں تھیں، جن کی سربراہی جاپان،اٹلی اور جرمنی کے ہاتھوں میں تھی۔ دوسری طرف اتحادی طاقتیں تھیں ،جو امریکہ، برطانیہ اور روس کے ماتحت اکٹھی تھیں۔ تاہم یہ جنگ محوری طاقتون کی شکستِ فاش پر منتج ہوئی۔ اْن ممالک پر کڑی پابندیاں عائد کی گئیں۔ بظاہر ان ممالک ا ور ان کی عوام کا مستقبل اندھی گلی میں دھکیل دیا گیا۔ لیکن اِن ممالک نے اپنی اِس شکستِ کو فوری بدلہ لینے کی نفسیات میں کْڑھ کْڑھ کر مرنے کی بجائے اپنی توجہ سوفٹ ڈویلپمنٹ پر مرکوز کر دی۔ اِنہوں نے اپنی توانائیوں کو کسی جنگی مہم میں جھونکنے کی بجائے انہیں تعلیمی ،معاشی اورسائنسی میدانوں میں صرف کرنے کی ٹھان لی۔ یہی وجہ ہے کہ آج جاپان، امریکہ اور چین کے بعد دنیا کی تیسری بڑی، جبکہ جرمنی چوتھی اور اٹلی آٹھویں بڑی معاشی طاقت ہے۔ ان ممالک نے صلح حدیبیہ سے واضح سبق سیکھا۔ اگر ان کی جگہ ہم ہوتے تو بدلے کی امنگ میں سب کچھ بھلا کر دشمنوں کے ٹینکوں پر پتھر برسا رہے ہوتے یا انہیں شکست سے دوچار کرنے کے لئے اپنی ہی تنصیبات کو آگ لگا رہے ہوتے۔
اس وقت معاشی اور دفاعی تناظر میں پاکستان کی ہندوستان کے مقابلہ میں حالت وہی ہے جو صلح حدیبیہ کے وقت کفار کے مقابلہ میں مسلمانوں کی تھی۔میری یہ ذاتی رائے ہے کہ ہمیں صلح حدیبیہ کے اسباق سے ، محوری طاقتوں کی طرح استفادہ کرتے ہوئے اپنے لئے وقت دستیاب کرنا چاہیے جس میں نہ صرف’’ہم اپنے گھوڑے تیار کرسکیں ‘‘ بلکہ خود کو ایمانی، تعلیمی ،معاشی اورسائنسی اعتبارسے اتنا طاقتور بنا لیں کہ اِن میدانوں میں دشمن کو بچھاڑ کے رکھ دیں،اور وہ اْسی طرح ہمارے سامنے دوزانو عاجز ہو جائے جیسے آج امریکہ،انگلینڈ اور روس جاپان ،جرمنی اور اٹلی کی قدر دانی کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔
عالمی سطح پر اپنی تعلیمی ،معاشی اورسائنسی’’ اوقات‘‘ سے قطعِ نظر، اگر ہم اپنے اندرونی حالات پر اچٹکتی سی نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ شروع سے لیکر آج تک’’ اس گھر کو گھر کے ہی چراغ سے آگ لگتی آ رہی ہے۔‘‘ آئینِ پاکستان کے ساتھ جو تمسخردیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کے سامنے رونما ہوتا آیا ہے اْس سے کتابوں کے اوراق سیاہ کیے جا چکے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور مقتدر اداروں نے ہوسِ اقتدار اور زعمِ طاقت میں ہمیں معاشرتی اورتعلیمی میدانوں میں سر اْٹھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ جب گھر میں ہی اتفاق نہیں ہوگا، اور سب باہم دست وگریباں ہوں گے تو کیسے باہر کے دشمن کے ساتھ مقابلہ کر سکیں گے۔ جہاں ہمیں بیرونی سطح پر’’ صلح حدیبیہ‘‘ کی ضرورت ہے ، اس سے قبل ہمیں اندرونی سطح پر’’ صلح حدیبیہ‘‘ آج زیادہ درکار ہے۔اس کیلئے تمام اداوں، اداروں کے افراد اور اِن کے’’ عشاقان‘‘ کو اپنی انا?ں اور ضد کو وطن کی بقا اور خوشحالی کی خاطر لمحہ بھر کیلئے ایک طرف رکھنا ہو گا۔ ممکن ہے کہ اتباعِ صلح حدیبیہ سے ہمارا نام بھی کبھی جاپان، جرمنی اور اٹلی کی طرح قابلِ عزت ممالک کی فہرست میں لکھا جائے۔