عنبرین فاطمہ
منی بیک گارنٹی کے ڈائریکٹر’’ فیصل قریشی ‘‘اور ان کی پہلی فلم گزشتہ دنوں رہی ہے بہت زیادہ چرچا میں، کسی نے فلم کو پسند کیا تو کسی نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ۔ نوائے وقت نے گزشتہ ونوں ڈائریکٹر فیصل قریشی کا خصوصی انٹرویو کیا ، انٹرویو میں ہونے والی باتیں درج زیل ہیں۔فیصل قریشی نے کہا کہ میں ناقدین کی رائے سے بالکل نہیں گھبراتا بلکہ میں ان کی رائے کا احترام کرتا ہوں ، ہر کسی کو حق ہے کہ وہ جو محسوس کرے بیان کرے ،لیکن مجھے تھوڑا سا گلہ ان لوگوں سے ہے جو مجھ سے بات کئے بغیر یکطرفہ لکھتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میرا یہ بھی ماننا ہے کہ جو لوگ فلم کو ناپسند کررہے ہیں اور فلم کے حوالے سے انکی رائے مثبت نہیں ہے یقینا ان کو مجھ سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا بس یہ ان کی رائے ہے اور میں ان کی رائے کااحترام کرنے کا پابند ہوں۔ لیکن لوگوں کو کسی کی بات سننے کی بجائے خود جا کر پہلے فلم دیکھنی چاہیے پھر وہ خود فیصلہ کریں کہ فلم کیسی ہے ۔ کسی کی باتوں میں آکر زہن بنانا کہ فلم اچھی نہیں ہے یہ مناسب نہیں ہے۔ فیصل قریشی نے کہا کہ میں نے کئی سال تھیٹر کیا ، میں تھیٹر پر لکھتا تھا ، اور ایکٹ بھی کرتا تھا ، میرے تھیٹر کی اداکاری ٹی وی کے لوگوں کو اتنی اچھی لگی کہ انہوں نے مجھے ٹی وی پر کام کرنے کی آفر دی ۔ یوں 1993کے بعد میں ٹی وی پر بھی آگیا اور کام کرنا شروع کر دیا ۔ایک سوال کے جواب میں فیصل قریشی نے کا کہ تھیر پر کام کرنے کا اپنا ہی مزہ ہے ، لیکن تھیٹر پر کام کرنے کیلئے بہت زیادہ وقت درکار ہوتا ہے جو کہ اب ممکن نہیں ہے۔ہاں اگر کبھی وقت ملا تو پھر سے تھیٹر کرنا چاہوں گا۔ تھیٹر پر فورا آڈینز کا رد عمل بتا دیتا ہے کہ آپ کیسا پرفارم کررہے ہیں۔ اسی طرح سے مجھے سینما میں جا کر فلم دیکھنا اور شائقین کا رپسپانس فورا بتا دیتا ہے کہ ان کو فلم کیسی لگ رہی ہے۔ میں نے اپنی فلم منی بیک گارنٹی کا پہلا شو آڈینز میں بیٹھ کر دیکھا ، لوگ تالیاں بجا رہے تھے ، مختلف سینز پر سیٹیاں بجا رہے تھے ۔ خوش ہو رہے تھے اس طرح کا لائیو ریسپانس بہت زیادہ ہمت اور طاقت دیتا ہے اور ڈائریکٹر کو پتہ بھی چلتا ہے کہ اس نے کہاں کہاں غلطی کی ہے، جیسے بہت سارے لوگوں کو سفید خون نکلنے کا مطلب سمجھ نہیں آرہا تھا ، ایسی بہت ساری چیزیں ہیں یقینا جن کے بارے میں آئندہ احتیاط کروں گا۔ فلم میں علامتی چیزوں کا استعمال کیا گیا ، جیسے سفید خود کیوں نکل رہا ہے، یا خون کا رنگ لال کیوں ہو گیا۔ باہر کی فلموں میں تو یہ سب ایک عرصے سے ہو رہا ہے لیکن پاکستان میں یہ سب نیا ہے لہذا اسکو ہضم کرنا ابھی مشکل ہے، مزید لوگ آئیں گے تجربے کریں گے فلمیں بنائیں گے تو یقینا حالات بد ل جائیں گے۔ فیصل قریشی نے کہا کہ میں نے اپنی فلم کے حوالے سے اخباروں میں پازیٹیو نیگیٹو ہر طرح کے ریمارکس پڑھے ، مجھے کسی پر غصہ نہیں آیا۔ میرے لئے آڈینز زیادہ اہمیت رکھتی ہے ان کا ریسپانس اہمیت رکھتا ہے اور وہ ریسپانس میں سینما گھروں میں جا کر دیکھ رہا ہوں ۔میرے جاننے والے مجھے کہہ رہے ہیں کہ میں ان کو فلم دیکھنے کیلئے ٹکٹس لے کر دوں ہائوس ہر طرف فل جا رہے ہیں جس کی وجہ سے اپنے جاننے والوں کو ابھی تک ٹکٹس نہیں دلا سکا۔ فیصل قریشی نے کہا کہ منی بیک گارنٹی کو بنانا ایک الگ تجربہ تھا ، ایسے تجربات پہلے پاکستان میں نہیں ہوئے۔ جبکہ ہالی وڈ اور بالی وڈ میں ایسی فلموں کے تجربات بار بار کئے گئے ہیں ۔ بینک میں ڈکیتی پر فلمیں بنانے کی ایک تاریخ ہے پوری دنیا میں ہر ملک میں ہر زبان میں اب تک سینکڑوں ایسی فلمیں بن چکی ہیں ۔ اسی طرح سے جیل سے بھاگے ہوئے ہوں یا لو اسٹوری ہو ہر طرح کی فلمیں بار بار بنی ہیں ، میں لواسٹوری بناتا تو جنہوں نے تنقید کرنی تھی انہوں نے کہنا تھا کہ قیامت سے قیامت تک بنا دی ہے۔ میں نے ہمارے سیاسی سسٹم پر طنز اور بینک رابری کو مکس کر کے کہانی بنائی ہے ۔انہوں نے کہا کہ میں نے الگ تجربہ کیا تھا لہذا مجھے آئیڈیا تھا کہ ہر دو صورتوں میں رد عمل شدید ہی آئیگا، میری فلم زیر بحث ہے اچھی بات ہے فلم پر بحث ہو رہی ہے ، کسی چیز پر بحث ہوتے رہنا نہ ہونے سے تو بہتر ہے۔ میں آڈینز کو حیران کرتا رہوں گا مختلف قسم کی فلمیں بنا بنا کر، ہر بار ان کے لئے ایک نئی چیز لیکر آئوں گا ، حالانکہ میں جانتاہوں کہ نئی چیز کو نئے تجربے کو ہضم کرنا بہت آسان نہیں ہوگا۔ فیصل قرشی نے کہا کہ میں اب ایک اور فلم بنا رہاہوں اور وہ فلم بھی الگ ہی ہو گی اس کے بعد کی بھی ایک فلم پلا ن کر چکا ہوں ۔ فیصل قریشی کہتے ہیں کہ میں سوشل میڈیا پر بالکل بھی ایکٹیو نہیں ہوں، میں تو دو مہینے میں ایک پوسٹ شئیر کرنے والا بندہ ہوں ، لیکن جب فلم آرہی تھی تو میں اپنی چیزیں روٹین سے سوشل پر ڈال رہا تھا۔ مجھے سوشل میڈیا کی زندگی حقیقت کے قریب نہیں لگتی ۔ فیصل قریشی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ فواد خان بہترین اداکار ہیں اور شنیرا اکرم کے ساتھ کام کرکے ایسا لگا کہ جیسے وہ تو ایک مکمل اداکارہیں وہ پہلے دن جب سیٹ پر آئیں تو انہوں نے مجھے حیران کر کے رکھ دیا ، وہ بھرپور تیاری کے ساتھ سیٹ پر آئی تھیں، وسیم اکرم تو پھر بھی کمرشلز میں کام کرنے کا تجربہ رکھتے تھے لیکن شنیرا کے پاس ایسا کوئی تجربہ نہ تھا ،لیکن انہوں نے جس طرح سے سینز اوکے کروائے میں حیران رہ گیا، ان کا اعتماد اور ڈائیلاگ ڈلیوری دیکھ کر۔ڈائریکٹر نے مزید یہ بھی کہا کہ شان شاہد نے اگر تنقید کی ہے تو انکا حق ہے وہ کر سکتے ہیں ،میں ان کا بہت بڑا مداح ہوں ، ان کے کام سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ہم سب ایک ہی انڈسٹری سے ہیں ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں اور کرتے ہی رہیں گے۔