پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین ، سابق وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ مکمل لندن پلان سامنے آ چکا ہے میری گرفتاری کے بعد پرتشدد واقعات کا بہانہ بنا کر بغاوت کا مقدمہ قائم کیا جا ئے گا تاکہ مجھے دس سال تک جیل میں رکھا جا سکے۔ لندن پلان کے تحت ان کی اہلیہ بشریٰ بیگم کو جیل میں ڈال کر ان کی بے توقیری کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ حکمرانوں نے جج، جیوری اور سزا پر عملدر آمد والا کردار بھی خود ہی سنبھال لیا ہے۔ سپریم کورٹ کے باہر جے یو آئی(ف) کا ڈرامہ کیا جا رہا ہے، اس کا صرف ایک مقصد ہے تاکہ چیف جسٹس آئین کے مطابق فیصلہ نہ دیں۔ خون کے آخری قطرے تک لڑوں گا ان کی غلامی سے موت بہتر ہے۔ عمران خان کا اپنا ایک موقف ہے لیکن اب یہ موقف کسی حد تک دشمنی میں بدل چکا ہے وہ کسی بھی طور جمہوری رویہ نہیں اپنا رہے۔ پر تشدد واقعات کو لیڈ کون کر رہا تھا اور اس کی منصوبہ بندی میں کون شامل تھا اس کی تحقیقات ہونا باقی ہیں لیکن ابتدائی اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کی اعلی قیادت یہاں ملوث نظر آتی ہے ۔ اگر ابتدائی طور پر سامنے آنے والی ویڈیوز اور آڈیوز کو دیکھا جائے تو یہ بات واضح طور پر محسوس ہوتی ہے کہ عمران خان کی جماعت کے نمایاں لوگوں نے پرتشدد کارروائیوں کے لیے لوگوں کو اکسایا، ان کا جلاﺅ گھیراو¿ میں مرکزی کردار رہا ہے۔ اس لیے اپنی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے انہیں پرتشدد واقعات سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ البتہ فیصلہ تحقیقات سے ہی ہو گا کہ کون کتنا قصور وار ہے۔ جہاں تک تعلق انہیں دس سال تک جیل میں رکھنے کے پلان کا ہے تو یہ بیان خاصا مضحکہ خیز ہے کیونکہ حکومت ختم ہونے کے بعد عمران خان کو ہر پلان کا وقت سے پہلے ہی علم ہو جاتا ہے لیکن جب وہ حکومت میں تھے سب کچھ ہونے کے بعد بھی وہ بہت سے معاملات سے لاعلم ہی رہتے تھے ۔ حالانکہ اس وقت وہ وزیراعظم ہوا کرتے تھے اور ساری ایجنسیاں ان کے ماتحت اور انہیں جواب دہ تھیں لیکن اس وقت وہ بے خبر رہتے تھے اس لیے ایسے پلانز پر لوگوں کے جذبات کو بھڑکانے سے بہتر ہے کہ وہ عدالتوں کا سامنا کریں۔ دائیں بائیں بھاگنے کے بجائے قانونی راستہ اختیار کریں۔ نہ وہ کسی کے غلام ہیں نہ اس ملک کا کوئی شہری غلام ہے یہ آزاد لوگوں کا ملک ہے اور نو دس مئی کو ہونے والے پرتشدد واقعات اور اربوں کا نقصان اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہاں سب آزاد ہیں۔ کیا کوئی غلام اپنے آقا کی گاڑی جلا سکتا ہے، اس کی املاک کو نقصان پہنچا سکتا ہے، کیا کوئی غلام اپنے آقا کا گھر جلا سکتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ کسی کی غلامی نہیں کرنی یہ بیانیہ ہی جھوٹ اور عوامی جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ یہ کوئی جمہوری رویہ نہیں ہے۔ جمہوریت میں جماعتوں کی حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں یہ تو بادشاہت والے نظام کی سوچ ہے کہ جیسے کسی نے حملہ کر کے تخت الٹا دیا ہے اور پی ٹی آئی اسے ہرحال میں واپس لینا چاہتی ہے۔ یہ کوئی مناسب عمل نہیں۔ اگر آپ پر مقدمات ہیں تو ان کا سامنا کریں جس پر مقدمات ہیں وہ عدالت جائیں کیونکہ قانون کا یہی تقاضا ہے اور آپ تو خود ایک قانون کے علمبردار بنتے ہیں۔ ملکی قانون کے تحت بننے والے مقدمات میں عدالتوں سے ہی ریلیف ملنا ہے اور وہیں فیصلہ ہونا ہے۔ جس پر مقدمات ہیں اسے عدالت پیش ہونا پڑے گا اس میں کوئی بے حرمتی نہیں ہے۔ حرمت تو ہر خاتون کی ہے۔ کیا جو سڑکوں پر مظاہرے کر رہی ہیں ان کی کوئی حرمت نہیں ہے؟ عمران خان کی جماعت کے سرکردہ سیاست دانوں نے بلوائیوں کی سربراہی کی ہے اس بنیاد پر قائم مقدمات کا سامنا کریں۔ کیا یہ مناسب عمل ہے۔ عمران خان نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر انہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا تو یہی ردعمل آئے گا۔ کیا یہ ریاستی اداروں کو کھلی دھمکی نہیں ہے۔ کیا حکومت ختم ہونے کے بعد اور بعض اوقات اپنی ہی حکومت میں سیاست دان قانون کے شکنجے میں نہیں رہے، جیل نہیں گئے، عدالتوں کا سامنا نہیں کیا۔ یہ طریقہ کار ہے اور عمران خان تو خود اپنے سیاسی مخالفین کی جیلوں میں سے اے سی اتروانے جیسے سطحی بیانات دیتے رہے ہیں۔ موجودہ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اب فیصلہ ریاستی اداروں نے کرنا ہے۔ جو لوگ بھی توڑ پھوڑ، جلاﺅ گھیراو¿ میں ملوث رہے ہیں ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ انہیں سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے ۔ مقدمہ بغاوت کا ہو یا جو بھی ہو اس معاملے میں چہرہ دیکھنے کے بجائے جرم دیکھ کر فیصلہ کرنا ہی بہترین فیصلہ ہو گا۔ کوئی بیماری کا بہانہ بنائے یا لوگوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرے کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ انہیں نشان عبرت بنانے کی ضرورت ہے۔ کوئی رو رو کر معافی مانگے یا واسطے دے جیسے انہوں نے ملک کی بے حرمتی کی ہے اسی طرح بے رحمانہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی فیاض الحسن چوہان کا بیان میری نظر سے گذرا ہے موصوف فرماتے ہیں کہ اس دن پولیس جان بوجھ کر غائب تھی۔ کیا سابق وزیر یہ بتا سکتے ہیں کہ پولیس ہوتی تو کیا ہوتا۔ اگر پولیس ہوتی لاٹھی چارج ہوتا، ڈنڈے سوٹے چلتے تو فیاض الحسن چوہان اور ان کے ساتھی روتے روتے بتاتے کہ پولیس نے بدترین فسطائیت کا مظاہرہ کیا ہے، ریاستی جبر کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اگر پولیس نہیں تھی یا قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں نے مزاحمت نہیں کی تو اس کا کیا مطلب ہے کہ آپ کے بددماغ کارکن جب چاہیں جہاں چاہیں توڑ پھوڑ کرتے پھریں انہیں کوئی روکنے والا نہ ہو۔ اس لیے ایسے بہانے بنانے اور اس جھوٹ کے پیچھے چھپنے کے بجائے حالات اور مقدمات کا مقابلہ کریں۔
آخر میں وصی شاہ کا کلام آپکی خدمت میں پیش ہے۔
دشمن مرئے تے خوشی نہ کریئے سجناں وی مر جانا اے
اساں وی اینج ای اج نئیں تے کل چلے جانا اے
غلطیاں ساڈے کولوں وی ہزاروں لکھاں ہوئیاں نے
معافی ا±ودے کولوں ای منگنی، معافی اونے ای دینی اے
کرنے آلا کم ایہوادی اے باقی ساریاں گلاں نیں
سارے جگ توں معافی منگیاں کی لبھنا اے
ککھ نیں لبھنا
اساں اے معافیاں منگ کے ای ا±توں بری ہونا
سچ تے اے وے اکرم چودھری نئیں کہ اساں بری ہو سکیے
اساں اگر بری اودے کولوں ای ہوناتے بری ایناں نے وی اوناں کولوں ہونا
کرو دعا اودے کولوں، ای ساریاں تے رحم کرے او ذات جیہڑی ساریاں تے رحم کردی اے
جیہڑی رحمان وی اے رحیم وی اے
معاف کرن تے آوے تے جینو چاہوے معاف کرئے او
او جبار قہار جینوں چاہوے سزا او دیوے
تے او ذات جزا نال اوناں نو وی عطا کر دیندی اےجیڑے ساڈے سامنے ہوندے بڑے گنہگار نے
بس کرو دعا.... بس کرو دعا.... بس کرو دعا
کوئی رعایت نہیں کریں، بے رحمانہ فیصلوں کی ضرورت!!!!
May 16, 2023