کالم:لفظوں کا پیرہن
تحریر:غلام شبیر عاصم
ایک بہت بڑے بس سٹاپ پر پھلوں والی ریڑھیوں کے جْھرمٹ میں گاما موچی کو جوتے گانٹھتے برسوں گزر گئے ہیں،اس کی آنکھوں کے سامنے کئی چھوٹے آج چاند گاڑی کے"اگ ٹائم"شوٹر ٹائم" کے ڈرائیور بن گئے ہیں،یہ الگ بات کہ ان چھوٹوں کا ابھی قومی شناختی کارڈ بھی نہیں بنا۔میں اکثر بابا گاما ہی سے جْوتے پالش کرواتا ہوں۔پالش کے بعد جوتے کو جو چمک کے لئے کیمیکل کا کوٹ مارتے ہیں،اس سے وقتی طور پر تو جوتا لچھ پچھ ہوجاتا ہے مگر چمڑا باالخصوص ریکسین کو تو مرض"شوگر"کی طرح یہ کیمیکل کھا جاتاہے۔ایک دن میں نے بابا گاما موچی سے اپنی چپل پالش کروائی اور کیمیکل مارنے سے منع کیا۔اس نے دوچار برش مارے اور جوتا پالش کرکے ایک طرف رکھ دیا۔میں نے اس سے پیسے پوچھے تو اس نے چالیس روپے مانگے،حالانکہ میری نظر میں چالیس روپے والا کام نہیں تھا۔بجائے اس سے بحث کرنے کے میں نے اسے چالیس روپے یہ خیال کرکے دے دئیے کہ شدید گرمی میں بڑھاپے میں بیچارا رازی کے لئے روپیہ روپیہ کمانے کو بیٹھا ہوا ہے۔اس کے بعد میں دوچار دفعہ اس کے پاس گیا تو دس بیس روپے اضافی بھی دے دیتا تھا۔بلکہ ایک دن تو میری محبت اور صلہ رحمی کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا میں مزید طغیانی آئی اور میں نے چائے والے اچْھو سے انہیں چائے بھی پیش کی۔
میں نے سوچا کہ بابا گاما اس کو اپنی تضحیک تصور نہ کرے میں نے اس سے کہا میں آپ کو کوئی بھکاری سمجھ کر نہیں بلکہ ایک مسلمان بھائی اور محنت کش ضعیف سمجھ کر محبت سے کہتا ہوں کہ آپ نے دن میں جب بھی چائے پینی ہو کھوکھے والے کو کہہ دیتا ہوں،آپ اسے پیسے نہ دینا۔گاما جی خوش ہوئے اور مجھے دعائیں دیں۔بابا گاما کے سامنے شربت والے صاحبیکو بھی اپنا تعارف کروایا اور اپنا دفتر بھی بطور ضمانت دکھا دیا کہ آپ روزانہ بِل مجھ سے وصول کرنا۔بابا گاما کو میں نے کہا کہ آپ کا کوئی مہمان دوست بھی آجائے تو آپ اسے بھی میرے کھاتے سے چائے یا شربت پلا سکتے ہیں،بابا گاما سے مجھے پیار سا ہوگیا تھا۔کچھ ہفتے گزرنے کے بعد میرے ذہن میں خیال آیا کہ کرپشن،منافقت، جھوٹ اور لوٹ مار تو ہمارے معاشرہ میں ایسے پھیل چکی ہے جیسے جنوری دسمبر کے دنوں میں دْھند"م?چھری"ہوئی ہوتی ہے۔میرے اندر صحافتی جراثیم نے سر اٹھایا اور اپنے انداز سے پتہ کیا تو پتہ چلا کہ مہمان آئے نہ آئے بابا گاما چائے پئے نہ پئے بِل روزانہ کھوکھے والے کی ملی بھگت سے میرے کھاتے میں شامل کیا جارہا ہے۔یہ کرپشن کا راز مجھ پر صاحبے شربت والے نے کھولا تھا۔یہ بات سن کر میرے پاوں تلے سے زمین نکل گئی۔میرا دل ٹوٹ گیا،جذبہ صلہ رحمی ریزہ ریزہ ہوگیا۔بیساختہ منہ سے نکلا"واہ بابا گاما تْو بھی سیاستدانوں کی طرح کرپٹ نکلا۔افسوس کہ ہمارے معاشرہ میں بے ایمانی،بدعنوانی اور حرص و لالچ کا زہر رگ و پے میں سرائیت کرچکا ہے۔ہم اس قدر اخلاقی گراوٹ اور بناوٹ کا شکار ہوچکے ہیں کہ اب تو کسی کی خاطر نیکی کرنے سے پہلے کئی بار سوچنا پڑتا ہے۔ہم خود ہی نیکی اور اعمال صالح کو مسدود و محدود کررہے ہیں۔یہاں ایسے کئی بابے گامے ہیں،جو مجبوری،مفلسی اور بے بسی کا روپ بنا کر کئی نرم دل لوگوں کو ورطہ حیرت اور تفکرات میں ڈال کر انہیں سنگدلی میں ڈھال رہے ہیں۔ہم سیاستدانوں کی کرپشن کے رونے روتے رہتے ہیں،یہ زہر تو ہر سطح پر مختلف انداز میں پایا جارہاہے۔ان کے خلاف کہاں کون رِٹ دائر کرے جو کئی رقیق القلب انسانوں کے نیک جذبات کو مجروح کرتے ہیں۔ایسے گناہوں اور بدعنوانی کی رِٹ رپٹ تو اللہ پاک کے ہاں ہی دائر و درج ہوتی ہے۔جہاں کسی بھی وزیر مشیر،ایم پی اے،ایم این اے کے رقعہ یا فون کی کوئی حیثیت و رسائی نہیں ہے۔بس دعا ہی کام کرسکتی ہے۔اور ایسے دل توڑ انسانوں کے لئے کون دعائیں کرے گا۔جب ایسی حرکتیں اور حماقتیں دیکھ کر نرم دل لوگوں کے دل ہی کھٹے ہوجائیں گے تو پھر عمل صالح اور نیکی کا عمل ختم ہونے تک آجائے گا۔کسی کے ماتھے پر تو نہیں لکھا ہوا کہ کوئی غریب اور تنگدست آپ کو"چْونا نہیں لگائے گا"۔ایسے لوگوں کی ان دلسوز حرکتوں کی وجہ سے کئی خوف خدا رکھنے والے حقدار بھی اپنے حق سے محروم رہ جائیں گے۔خدا جانے ہماری اصلاح کب ہوگی،ہم کب سدھریں گے،ہم بھیڑ بکریوں کے ریوڑ سے قوم اور قوم سے بہتر قوم کب بنیں گے۔