محمود بھٹی
پیرس کی ڈائری
پانامہ سے اقامہ نکالنے والوں کو مشہور زمانہ والیوم ٹین میں سے نواز شریف کا بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم سے بڑا جرم مل جاتا تو وہ اسکا ڈھول کا پول پوری دنیا میں کھولتے رہتے، یہی وجہ ہے والیم ٹین آج تک نہ کھل سکا لیکن تخت اسلام آباد پر بٹھائے گئے کٹھ پتلی اور اسکے سہولت کاروں کی سازشی کارستانیوں کے آڈیو والیم کھلنا شروع ہوگئے ہیں، حالت بے خودی میں ادا شدہ الزامات پر مبنی تازہ ترین حماقت زبان زد عام ہوگئی ہے جس پر ارباب اختیار کا ردعمل تو آگیا ہے بس حقیقی عمل ہونا باقی رہ گیا ہے،
دوبارہ تخت اسلام آباد پانے کیلئے ڈونکی کنگ کا بیک وقت توبہ تلہ کرنا اور گیدڑ بھبھکیاں لگانا دونوں جاری ہیں، میں گرفتاری کیلئے تیار ہوں کی بڑ تو لگادی ہے جس پر اسکے چیف حواری نے اس بیان سے علیحدگی اختیار کرلی ہے جس کے بعد بچے کھچے حواری پتوں کی مانند جھڑنے کیلئے تیار ہیں،
سوشل میڈیا کے ذریعے سازشی آڈیو کالوں کی شیئرنگ جاری ہے،ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ کیسی چیئرمینی ہے کہ 22 سالوں میں جتنے بندے بھی چھوڑ کر گئے مجال ہے کہ ایک نے بھی چیئرمین بارے اچھے خیالات کا اظہار کیا ہو،جس سے اپنا ڈیرہ نہیں چلتا اسے پورے ملک کی باگ ڈور تھما دی گئی، سینہ گزٹ تو یہ بھی ہے کہ ڈونکی کنگ کے دربار کی چکا چوند اور کھلے ڈھلے ماحول نے یحییٰ کی رنگینیوں کو بھی ماند کردیا ہے، اسکے سامنے تو مشرف کی روشن خیالی خام خیالی بن کر رہ گئی، تخت پر سوار ہونے سے پہلے اور گھسیٹ کر اتارے جانے کے بعد بھی اس کی قابل اعتراض سرگرمیاں جاری ہیں، ہر قسم کی ملاقات کیلئے مخصوص جھنڈ اسکے ویٹنگ ایریا میں تیار بیٹھا پایا جاتا ہے، یہ کبھی خود ڈونکی کنگ کو واٹس ایپ میسج کرکے کہتے ہیں کہ جناب تحفہ لیکر آئے ہیں قبول کیجئے اس لئے شرف باریابی چاہتے ہیں، سی سی ٹی وی کیمروں کی آنکھوں کے ذریعے تمام مناظر آج بھی ہارڈ ڈسکوں میں محفوظ ہیں وہ سارے ملاقاتی جن میں پسندیدہ و ہم پیالہ و ہم نوالہ، لاڈلے کاروباری اور صنعتکار ، سوٹ بوٹڈ خواجہ سرا، چمکتے ٹرانس جینڈر، گورے چٹے زنخے اور خواتین نما لڑکیاں، یہ سب تو کسی قیمت پر بھی اس کے دربار تک رسائی کیلئے آمادہ ہوتے تھے، رسائی دانوں سے لیکر پہرے داروں تک سبھی نے رسائی دلانے کی مقررہ قیمت کے ہمراہ اتنے اضافی نذرانے بھی وصول کیا کرتے تھے جو بریف کیسوں کی گنجائش سے زیادہ تھے، پہرے دار بھی بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے بہتی گنگا میں نہا لئے، پہلے تو صرف سوشل میڈیا پر خبریں ہی چلیں لیکن سوچیں تب کیا ہوگا جب پرانی ساتھی کے بدلے نئی ساتھی اپنانے اور کچھ عرصہ بعد دو طرفہ واپسی کے شارٹ کٹ معاہدے منظر عام پر آئیں گے، وہ دن بھی قریب ہیں جب لین دین کے ریکارڈ سے یہ بھی سامنے آجائے گا کہ کون کس کس کا سماجی، معاشی اور غیر مادی وچولا یا وچولن تھی، وہ یہ سمجھتا رہا کہ لوگ مجھے پسند کرتے ہیں لیکن بے رحم تاریخ ستر سالہ خود ساختہ شہزادے کو زمان پارک کا راسپوٹین رقم کررہی تھی،
ٹچ فون کے دور میں اس نے ہر تقریر میں اتنے ٹچ دیئے ہیں کہ وہ ہر طبقے میں بلا امتیاز ٹچا مشہور ہو گیا ہے، آپ بھی ذرا سوچیں کون احمق ہوں گے جو اسے تقریروں میں کبھی رسیداں کڈو ٹچ، غداری ٹچ،دوسروں کو بے ایمان قرار دینے کا کرپشن ٹچ،مذہبی تعلیمات و تشبیہات کا ٹچ، ماضی کی چند کامیابیوں کی تکرار کا ٹچ،اپنی نام نہاد ایمانداری کا ٹچ،مذہبی ٹچ کو پکا کرنے کیلئے تسبیح گھمائو ٹچ،
طلاق ٹچ کے بعد نئی شادی ٹچ، پالیسی بیان سے انکار ٹچ،الزامات و بہتان ٹچ، کنفیوڑن پھیلانے کا ٹچ اور آخر میں مکر کر سارا الزام دوسروں پر ڈالنے کا ملبہ ٹچ دینے کی ترغیب دیا کرتے تھے، اپنی سیاسی زندگی کا آخری یعنی گرفتاری ٹچ باقی رہ گیا تھا وہ بھی اس نے آزما لیا ہے لیکن منہ مانگی موت اور شہادت کسی نیک روح کا ہی نصیب ہوتی ہے۔