مسکراہٹ بکھیرنے کی منزل دور نہیں

 موقف… نیئر صدیقی
nayersad@gmail.com

 لاہور سے جی ٹی روڈ کے راستے اسلام آباد جاتے ہوئے گجرات شہر کے گزرتے ہی دائیں طرف جلیانی کے مقام پر ایک ہسپتال کی پر شکوہ عمارت نظر آتی ہے۔جس پر لکھے عائشہ بشیر ٹرسٹ کلیفٹ ہسپتال کے الفاظ تو ہم میں سے کئی لوگوں نے پڑھے ہوں گے لیکن اس ہسپتال کے قیام کا مقصد اور اب تک کی کامیابیاں سن کر کسی بھی پاکستانی کا دنگ رہ جانا ایک فطری عمل ہے۔ یہ مسکراہٹ لانے والا ہسپتال ہے۔ جی ہاں! پاکستان کے بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ کو واپس لانے میں کلیفٹ ہسپتال کا کردارقابل تحسین ہی نہیں، قابل تقلید بھی ہے جس نے پیدائشی طور پر کٹے ہونٹ اور کٹے تالو کے سینکڑوں غریب، لاچار اور بے بس افراد کی مسیحائی کا کام اس جادوئی انداز سے کیا ہے کہ دنیا دنگ رہ گئی ہے۔ جتنی بڑی تعداد میں’’لائف چینجنگ سٹوریز‘‘ یہاں دیکھنے میں آتی ہیں، اس کی مثال شاید ہی کسی اور جگہ پر مل سکے۔
 ریلوے روڈ گجرات کے ایک چھوٹے سے سیٹ اپ سے تین ایکڑ پر مشتمل بین الاقوامی معیار کے کلیفٹ ہسپتال تک کا سفر تین دہائی سے زائدعرصہ کی جدوجہد پر محیط ہے۔یہ داستان ہے اس مشن کی جو ایک کاروباری خاندان کے ایک فرد کے ڈاکٹر بننے کے بعد شروع ہوا۔مرزا محمد بشیر کے بیٹے ڈاکٹر اعجاز بشیر نے ڈیسنٹ ویلفیئر سوسائٹی کے نام سے ادارہ قائم کرتے ہی مخلوق خدا کی خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔فرسٹ ایڈ، ماں بچے کی صحت، دیہات میں صحت و صفائی کی سہولیات اور اس طرح کے بیسیوں پراجیکٹس پر کام کرتے کرتے ڈاکٹر اعجاز بشیر کی توجہ معاشرے کے ایک ایسے طبقے پر مرکوز ہو گئی جو مسکرانا بھول چکا تھا۔یہ حقیقت ہے کہ پیدائشی طور پر کٹے ہوئے ہونٹوں کے ساتھ پیدا ہونے والے بچے کے ساتھ ساتھ اس کے والدین کے چہرے سے بھی مسکراہٹ ختم ہو جاتی ہے۔ پھر ان اداس اور مجبور چہروں کی مسکراہٹ کو واپس لانا ہی ڈاکٹر اعجاز بشیر کی زندگی کا مشن ٹھہرا۔مسائل بڑے تھے اور وسائل کم ، مگر لگن سچی ہو تو قدرت اپنے بندوں کی ضرور مدد کرتی ہے اور کلیفٹ ہسپتال کے معاملے میں بالکل ایسا ہی ہوا۔۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک خواب شرمندہ تعبیر ہو گیا اور گجرات میں بشیر فیملی اور دوست احباب کے تعاون سے ایک ایسے ہسپتال کی تعمیر نے تکمیل کے مراحل طے کر لئے جس نے کلیفٹ سرجری جیسے مشکل اور مہنگے ترین علاج تک ان سب کی رسائی ممکن بنا دی جو اپنے بچوں کی بین الاقوامی معیار کی مہنگی سرجری اپنے ہی ملک میں کروانے کے باریسوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً نو ہزار بچے کٹے ہونٹ یا تالو یا دونوں مسائل کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں اور ایسے مریضوں کی کل تعداد چار لاکھ سے بھی تجاوز کر چکی ہے جن میں سے ہر سال صرف دو ہزار مریض درست علاج کی جگہ تک پہنچ پاتے ہیں۔ کیونکہ اکثریت صرف یہ افواہ سن کر ہی علاج کی کوشش نہیں کرتی کہ اس کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں اور بیرون ملک علاج پر لاکھوں ڈالر خرچ کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔یہ بھی تلخ حقیقت ہے کلیفٹ سرجری ، پلاسٹک سرجری کی وہ مشکل ترین اور مہنگی ترین اسٹیج ہے جس پر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں نہ ہونے کے برابر کام کیا گیا ہے۔کیونکہ صرف ہونٹ یا تالو سی دینے سے علاج مکمل نہیں ہوتا کیونکہ کلیفٹ سرجری کے ساتھ سپیچ تھراپی، اڈیالوجی ، ڈینٹل سرجری اور پلاسٹک سرجری کے تمام شعبوں کا بیک وقت موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔اور سب سے بڑھ کر کلیفٹ سرجن کی دستیابی ایک مسئلہ ہے مگر کلیفٹ ہسپتال ، جدید ترین مشینری کے ساتھ ساتھ انتہائی قابل کلیفٹ سرجن ڈاکٹرزکے معاملے میں انتہائی خوش قسمت واقع ہوا ہے۔ 
انگلینڈ کیڈاکٹر امان اللہ راجہ Dr. Nick Hart, Dr. Chriss Hill, Dr. Chriss Theopold، ڈاکٹر محمد ریاض، پروفیسر زاہد رفیق ،ترکی کے Dr.Reha Kisnicksiاور پاکستان سے ڈاکٹر یاسر اقبال اور ڈاکٹر علی عادل جیسے مایہ ناز کلیفٹ سرجنز، کلیفٹ ہسپتال کی ٹیم کا حصہ ہیں۔ سال میں دو مرتبہ انگلینڈ سے کلیفٹ سرجنز کی ٹیم ہسپتال کا دورہ کرتی ہے اور اس دوران وہ موجود مریضوں کے آپریشنز بھی کرتی ہے اور ساتھ ساتھ مقامی ڈاکٹرز کی ٹریننگ کا سلسلہ بھی چلتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ سپیچ تھراپی، آڈیالوجی، ڈینٹل سرجری اور دیگر شعبوں کے قابل اور ماہر ڈاکٹرز بھی کلیفٹ کی فیکلٹی کا حصہ ہیں۔ اسی ہسپتال میں لیزر کے ذریعے چہرے کی جھریوں، ٹیڑھی یا بد نما ناک، غیر ضروری بالوں کے خاتمہ ، ہیئر ٹرانسپلانٹ، برن مینجمنٹ، بریسٹ سرجری اور باڈی ری شیپ جیسے علاج کی سہولت بھی مہیا کی جا رہی ہے۔ جو اس علاقے کیلئے یقیناً کسی نعمت سے کم نہیں۔کلینیکل سیٹ اپ کے ساتھ ساتھ مریض بچوں کی تفریح کیلئے بہترین پارک،خوبصورت پرندوں اور جھولوں کے علاوہ ان ڈور گیمز کے لئے ایکٹویٹی روم بھی بنایا گیا ہے تاکہ بچوں میں نفسیاتی دباو کم سے کم ہو اور وہ ہسپتال کو خوف کی جگہ نہیں بلکہ تفریح کی جگہ سمجھتے ہوئے اعتماد اور کامیابی کی منازل طے کرتے جائیں۔
 کلیفٹ ہسپتال میں ایک عالمی معیار کا ریسرچ سنٹر بھی موجود ہے۔جس میں ماہرین کٹے ہونٹ اور تالو کے نقص کی وجوہات اور ان کے تدارک پر مسلسل تحقیقات میں مصروف ہیں۔ اس ریسرچ سنٹر کی تھیوریز دنیا بھر کی مختلف یونیورسٹیز کو بھیجی جاتی ہیں تاکہ اس مسئلے کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کرنے اور اس کے علاج کیلئے ادویات کی تیاری میں مدد مل سکے۔ بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ کلیفٹ ہسپتال کے روحِ رواں ڈاکٹر اعجاز بشیر کے وڑن کے مطابق اس مشن کوآنے والی نسلوں تک پہنچانے کیلئے انٹرنیشنل معیار کا ایک کلیفٹ ٹریننگ سنٹر بھی قائم کیا گیا ہے جس میں ماہر پروفیسر ڈاکٹرز، میڈیکل شعبہ سے وابستہ تمام ٹریڈز مثلاً ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل اسٹاف اور آپریشن تھیٹر اسٹاف وغیرہ کی ٹریننگ کرتے ہیں۔ سرجنز کی عملی ٹریننگ کا سلسلہ بھی جاری ہے اور مختلف شعبوں میں ہونے والی تحقیقات کے بارے میںورکشاپس کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ 
 دیے سے دیا جلانے کی خوبصورت روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کی متحرک این جی اوز، یونیورسٹیز ، کالجز، ملٹی نیشنل کمپنیزاور دیگر اداروں کے کلیفٹ ہسپتال اور پاکستان کلیفٹ لپ اینڈ پیلٹ ایسوسی ایشن کے ساتھ ایم او یوزکا سلسلہ بھی شروع کیا گیا ہے تاکہ مخلوق خدا کی بھلائی کا یہ سلسلہ آگے سے آگے بڑھتا رہے۔ مختلف اداروں کے سربراہان، سماجی و فلاحی شخصیات اور معاشرے میں اثر و رسوخ کے حامل افراد، تسلسل کے ساتھ کلیفٹ ہسپتال کا وزٹ کر رہے ہیں جس سے اگاہی کا سفر تیزی سے جاری ہے اور منزل قریب سے قریب تر آتی جا رہی ہے۔
آپ بھی آیئے مخلوق سے محبت کی سیڑھی پر قدم رکھ کر خالق کی رضا کی جانب گامزن اس قافلے کے ہمراہی بن جائیے۔ایسے تمام مریضوں کوکلیفٹ ہسپتال ریفر کیجئے ،پتہ بتائیے، درست اور مفت علاج کی سمت رہنمائی کیجئے۔آپ پاکستان کلیفٹ لپ اینڈ پیلٹ ایسوسی ایشن کے ممبر بھی بن سکتے ہیں اور ممبر بنے بغیر والنٹیئر یعنی رضا کار کے طور پر بھی اپنے حصے کی شمع روشن کرسکتے ہیں۔ہر چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنے کی منزل ہرگز دور نہیں۔

ای پیپر دی نیشن