ضیائپاشیاں…ڈاکٹر شہباز احمد چشتی
Dr.shahbazadvocate@gmail.com
امریکہ سے میرے نام سپانسر لیٹر آیا کہ مجھے ضیاء الامت کانفرنس نیو یارک میں شرکت کرنی ھے اس کانفرنس کے منتظمین پیرسید میر حسین شاہ صاحب اور چوہدری نادرخاں صاحب تھے حضور غریب نواز قبلہ پیر محمد امین الحسنات شاہ کی منظوری کے بعد ان کی موجودگی میں یہ رائے دی گئی کہ اگر شہباز کا ویزہ نہ لگے تو بیک اپ کے لئے کسی اور کا سپانسر لیٹر بھی منگوانا چاہیے تو میں نے علامہ رضاء الدین صدیقی کا نام پیش کیا تھا کیونکہ ان دنوں لاہور اور دیگر مقامات پر میری صدیقی صاحب سے مسلسل ملاقاتیں رہتی تھیں ھمارے ممکنہ میزبان شاہ صاحب اور چوہدری صاحب اس وقت تک علامہ صدیقی صاحب کے نام اور شخصیت سے آگاہ نہیں تھے لیکن میری رائے اور پیر صاحب کی توثیق کے بعد علامہ صدیقی صاحب کا دعوت نامہ امریکہ سے منگوایا گیا علامہ صدیقی صاحب اکثر مجالس میں اس بات کا برملا اظہار فرمایا کرتے تھے کہ امریکہ جانے لے لئے میرا نام شہباز احمد چشتی نے پیش کیا تھا اور یہ کہ میں ان کا کورنگ امیدوار تھا اور انہی کی بدولت میں شاہ صاحب اور چوہدری صاحب سے شناسا ہوا۔
اتفاق ایسا ہوا کہ علامہ صدیقی صاحب کا امریکہ کا ویزہ مجھ سے پہلے لگ گیا اور انہوں نے نیو یارک امریکہ تشریف لاکر ضیائ الامت کانفرنس میں شرکت کی اور خطاب فرمایا۔
میرا امریکہ کا ویزہ کئی ماہ کے بعد ایشو کیا گیا اس دوران صدیقی صاحب مزاقاً فرمایا کرتے تھے کہ "تمہارے ذیادہ جوان ہونے کی وجہ سے امریکن ایمبیسی نے تمھارا ویزہ لیٹ کر دیا ھے"
علامہ رضائ الدین صدیقی نے امریکہ میں اپنے خطابات کی وجہ سے بہت جلد اپنی دینی، علمی اورصوفیانہ پہچان بنا لی تھی ان کی شخصیت میں ایک خاص معنی خیز خاموشی بھی رہتی تھی مگر جب تبصرہ فرماتے تو سننے والے دنگ رہ جاتے۔ ایک دفعہ حضور غریب نواز قبلہ پیر محمد امین الحسنات شاہ صاحب نے بھیرہ شریف میں ان علماء اور اسکالرز کا اجلاس ب?لایا جو دارالعلوم سے فراغت کے بعد معاشرے میں مثبت کردار ادا کر رہے تھے میں اس اجلاس میں شریک تھا اہل سنت کے اتحاد اور قبلہ پیر صاحب کی سربراہی پر مشاورت جاری تھی سب علماء اس اتحاد کی ضرورت و اہمیت اور حضور پیر صاحب کی قیادت پر دلائل دے رہے تھے تو صدیقی صاحب نے کہا کہ میرے خیال میں یہ رومانس ذیادہ دیر نہیں چل سکے گا لھذا بھیرہ شریف کو اپنے علمی، تدریسی اور خانقاہی نظام پر ہی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے ان کا یہ ایک جملہ اپنی معنویت کے اعتبار سے اکثر علمائ کی آرائ پر بھاری تھا۔
امریکہ میں ابتدائی دنوں میں میری صدیقی صاحب کے ساتھ مختلف موضوعات پر کافی گفتگو رہتی تھی میں ایک شخص کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے بہت تنگ تھا تو فرمانے لگے آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں یہ شخص تو "مرفوع القلم "ھے اس اصلاح کو صاحبان علم ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں پھر کچھ لوگوں نے ھمارے درمیان غلط فہمیاں ڈالنے کی کو ششیں بھی کیں جس وجہ سے کچھ عرصہ ھمارے تعلقات میں نشیب فراز بھی رہے لیکن کبھی بھی باہمی ادب و احترام میں فرق نہیں آیا وہ مجھ سے علمی، فکری اور روحانی اعتبار سے بڑے تھے ہمیشہ اچھی اور مخلصانہ رائے دیتے تھے وہ شریف النفس اور صاحب فراست تھے لھذا کچھ افراد کے شرّ سے بچنے کے لئے ھمارے ادارے میں تشریف نہیں لاتے تھے جس کا انہوں نے مجھ سے دبے لفظوں میں اظہار بھی فرمایا تھا۔
حضور قبلہ پیر محمد امین الحسنات شاہ جب امریکہ تشریف لاتے تو آپ کی موجودگی میں صدیقی صاحب کے اور میرے خطابات ہوتے رہے ھمارے پیر بھائیوں کو ایک شخص سے بہت شکایات تھیں اور سب کو حیرانگی اس بات کی تھی کہ وہ کردار قبلہ پیر صاحب کے بہت قریب تھا لوگ ہم سے پوچھتے کہ پیر صاحب اسے کچھ کہتے کیوں نہیں تو صدیقی صاحب کا تبصرہ بہت شاندار تھا کہ پیر چونکہ اللہ تعالی کی شان ستاری کا مظہر ہوتا ھے۔ لھذا وہ مجرم کی ذیادہ پشت پناہی کرتا ھے۔ پیر صاحب قبلہ بھی اس جملے سے بہت محظوظ ہوئے۔ ایک دفعہ مجھے یہ بات سنانے لگے کہ حضور پیر صاحب نیویارک میں مجھے اپنے ساتھ واک پر لے گئے اور پوچھنے لگے صدیقی صاحب پاکستانی معاشرے کے برعکس امریکہ میں زندگی گذارنا کیسا ھے تو کہنے لگے کہ میں نے عرض کی حضور " ابھی تک تو یہاں زندگی سرکس کے رسّے پر چلنے کے مترادف ھے" پیر صاحب سن کر بہت مسکرائے۔
صدیقی صاحب چونکہ عالم، شاعر، ادیب اور خطیب بھی تھے لہذا لفاظی، جملے بندی ، فقرے بازی اور اچھے شعر کے انتخاب کے ساتھ ساتھ حسن ادائیگی میں وہ ید طولیٰ رکھتے تھے اہل سنت کی روایات کے سخت پابند اور صوفیانہ مزاج کے شناسا تھے۔ اللہ تعالیٰ نے صدیقی صاحب کو بہت ذیادہ صلاحیتیں عطا فرما رکھی تھیں وہ شاعرانہ مزاج اور سیلانی طبیعت کی وجہ سے ایک جگہ ٹِک کر کام نہیں کر سکے ورنہ وہ علمی رسوخ اور فکری پختگی کی وجہ سے کئی علمائ پر بھاری تھے ان کا وجود اپنی ذات میں ایک انجمن اور تھنک ٹینک کی حیثیت رکھتا تھا
صدیقی صاحب عمر کے آخری حصّے میں تحریری کام کرنا چاہتے تھے وہ نیویارک میں پاکستانی کمیونٹی کے محسن ڈاکٹر عبد الواحد کے ادارے گلاب بانو اسلامک سینٹر میں خدمات سر انجام دے رہے تھے ڈاکٹر صاحب نے ان کو کافی سہولیات دے رکھی تھیں ان کی تجہیز و تکفین سے لے کر ان کی میت پاکستان تک پہچانے کے تمام اخراجات ڈاکٹر صاحب نے اپنی ذاتی جیب سے ادا کئے ہیں۔سید ہارون انس شاہ سے ان کے خاندانی مراسم تھے لھذا شاہ صاحب ان کی بیماری کے ایّام میں ان سے مسلسل رابطے میں رہتے تھے اور پاکستان میں تدفین کے لئے بھی ساتھ گئے ہیں
نوجوان عالم دین علامہ سجاد رضا مدنی صاحب بھی صدیقی صاحب کے ہمراز اور فکری طور پر ان سے بہت قریب تھے وہ روزانہ یا ایک دن چھوڑ کر صدیقی صاحب کی عیادت کے لئے ھسپتال تشریف لے جاتے اور واپسی پر مجھے ضیائ الکرم اسلامک سینٹر میں ان کی صحت کے بارے میں آگاہی بخشتے۔ ضیائ الکرم اسلامک سینٹر میں افطار سے پہلے اور نماز تراویح کے بعد صدیقی صاحب کی صحت یابی کے لئے خصوصی دعائیں کی جاتیں۔ ان کے وصال کے ایک ہفتہ پہلے میں نے نیویارک کے ہسپتال میں جا کر ان کی عیادت کی تو انہوں نے اشارے سے فرمایا یہ دیکھو میرا کیا حال ہو چکا ھے میں نے کہا ہر جگہ آپ کے لئے دعائیں ہو رہی ہیں اور میں خود ضیاء الکرم سینٹر میں آپ کے لئے دعا کرواتا رہا ہوں تو انہوں نے اشارے سے ماتھے پر ہاتھ رکھ شکریہ ادا کیا میں وہاں کچھ دیر بیٹھ کر ان کی اہلیہ محترمہ سے ان کی صحت اور میڈیکل رپورٹس پر گفتگو کرتا رہا اور بعد ازاں ان سے اجازت مانگی تو انہوں نے غنودگی کے باوجود مسکرا کر اجازت دی ان کی حالت سے محسوس ہوتا تھا وہ جلد صحت یاب ہو جائیں گے مگر پاس تقدیر مسکرا کر فرشتہ ء اجل کو آوازیں دے رہی تھی بالآخر یہ درویش صفت زاویہ نشین ہمیشہ کے لئے جنت نشین ہو گیا۔
نیویارک کی سب سے بڑی مکی مسجد میں ان کا سب سے بڑا جنازہ ہوا اور جنازہ کے بعد میں نے جب ان کا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھا تو مجھے علامہ اقبال یاد آگئے۔ جنہوں نے فرمایا تھا وقت وصال مرد مومن کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار نہیں بلکہ مسکراہٹ کے نشان رقص کناں ہوتے ہیں کیونکہ وہ لذّت دیدار سے شاد کام ہوتا ھے۔
نشانِ مردِ مومن باتو گویم
چوں مرگ آید تبسم بر لبِ اوست
اللہ کریم علامہ صدیقی کو اپنے مرشدِ کریم حضور ضیاء کے شہر بھیرہ میں جنت کا سہرا عطا فرمائے۔( صاحب مضمون ڈائریکٹر ضیا ئ الکرم اسلامک سینٹر نیویارک امریکہ)