سب سے پہلے یہ بتا دوں کہ مجھے پی ایچ ڈی کے دوران ہی معلوم ہو گیا تھا کہ اپنے سے سائنس میں کچھ ’نئی ایجاد‘ نہ ہو پائے گی، لہٰذا جتنی سائنس وغیرہ سمجھی تھی اس کو’بیچ کر‘ (استعمال کر کے) زندگی گزارنے کا پروگرام بنا لیا تھا۔ تو کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ریسرچ پیپرز کی اس بھاگ دوڑ میں بہت پیچھے اور اس سے لاتعلق سا ہوں۔ لیکن کیا ہے کہ جب سے کچھ دوستوں نے ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) اردو میں شائع ہونے والی خبر مجھے بھیجی ہے اور پوچھنا شروع کیا کہ رہتے بھی تم سعودیہ میں اور ہو بھی پاکستانی تو اس پر ’بڑے بلب‘ سے تھوڑی روشنی ڈالو تو سوچا کہ اس خبر کے متعلق کچھ حقائق آپ کے سامنے رکھ دوں۔
ڈی ڈبلیو نامی ویب سائٹ نے ’نیچر میگزین‘ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ پچھلے سال دس ہزار سائنسی مقالوں کو اشاعت کے بعد ہٹا دیا گیا تھا۔ اس فہرست میں انھوں نے ’نہایت مہارت‘ سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ایسی ’چالاکیوں‘ میں سعودی عرب اور پاکستان دنیا بھر میں سب سے آگے رہے ہیں۔ اس پر کچھ پاکستانی ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر یہ امید بھی ظاہر کر رہے تھے کہ اگلے سال ہم سعودی عرب کو پیچھے چھوڑ کر اس میں اول آ جائیں گے۔ جب میں نے ’نیچر پبلشنگ گروپ‘ کی مکمل رپورٹ پڑھی تو کافی ہنسی آئی کہ کیسے انھوں نے اپنے وسیع بزنس کو بچاتے ہوئے ’ڈیٹا‘ کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ تحقیقی مقالے لکھنے والے میرے دوست اس ’ہنر‘ کو بخوبی جانتے ہیں کہ ’ڈیٹا جنریٹ‘ کرنے سے زیادہ اس کو اپنے انداز اور مفروضے کے مطابق ’پیش‘ کرنا اصل مہارت ہوتی ہے اور یہاں بھی کچھ ایسا کیا گیا تھا۔ پہلے یہ جان لیں کہ دنیا بھر میں بے شمار پبلشنگ گروپز ہیں جو تحقیقی مقالوں کو ماہانہ اور اسپیشل ایڈیشن کی بنیاد پر شائع کرتے ہیں۔ ان میں تین بڑے گروپز ایلیسور (Elsevier)، سپرنگر نیچر (Springer Nature)، اور ویلی (Wiley) ہیں جن کی سالانہ آمدنی بالترتیب 2.9 بلین، 2.1 بلین، اور 1.8 بلین ہے۔ اب جہاں بلین کا بزنس چل رہا ہو تو وہاں ڈیٹا اپنی پسند سے استعمال کیا جانا ذرا زیادہ سمجھ آتا ہے۔ اگر آپ ’نیچر‘ پر شائع ہونے والی آرٹیکل پڑھیں تو وہ اصل میں ویلی گروپ کے ایک جریدے میں شائع ہونے والے ’آٹھ ہزار‘ پیپرز کو واپس لینے پر لکھا گیا تھا۔ ان کا مقصد یہ کہنا تھا کہ ہمارے مقابلے میں ویلی پبلشرز نے یہ مقالے مناسب چھان بین کے بغیر شائع کر دیے تھے، لہٰذا یہ ان کو واپس لینے پڑے ہیں۔ اس آرٹیکل میں انھوں نے یہ تو نہیں بتایا کہ کس ملک کے سب سے زیادہ آرٹیکل واپس ہوئے مگر انھوں نے یہ کہا کہ جتنے ملکوں نے بھی پچھلے بیس سال سے ایک لاکھ سے زیادہ پیپرز چھاپے تھے اس میں سے ہر دس ہزار پر جتنے پیپر واپس ہوئے ہیں، اس کی بنا پر ایک گراف تشکیل دیا گیا۔ یہ گراف یہ ہرگز نہیں بتاتا کہ یہ تمام پیپرز جعل سازی کی بنیاد پر واپس ہوئے تھے۔ یہ گراف یہ بھی نہیں کہتا کہ ان ممالک نے یہ پیپرز اپنے مقامی جریدوں میں شامل کیے تھے۔
اس سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ تھی کہ جو دس ہزار کے قریب پیپرز واپس لیے گئے تھے ان میں سب سے زیادہ یعنی 5930 مقالے چین کے تھے۔ بھارت سے 564، امریکا سے 438، سعودی عرب سے 342 اور پاکستان سے 189 مقالے واپس ہوئے۔ مگر رکیے یہاں بھی 189 مقالے جو پاکستان کے واپس ہوئے اس کا یہ مطلب نہیں کہ سب کام ہماری یونیورسٹیز میں ہوا تھا بلکہ اس کو لکھنے والے اصل سائنسدان کسی باہر کے ملک میں بھی موجود ہو سکتے ہیں اور ان پانچ سے دس مصنفین کی فہرست میں ایک یا دو مصنف کسی پاکستان کی یونیوسٹی سے بھی شامل تھے جس کی بنیاد پر بھی ہمیں ایک نمبر مل گیا تھا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ تمام سائنسی مقالے ’جعل سازی‘ کی وجہ سے واپس نہیں لیے گئے کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس میں موجود مصنفین ہی اعتراض کر دیں، آپ کا نیا ڈیٹا پرانے ڈیٹا کی نفی کر دے، آپ کا ادارہ آپ کو پبلش کرنے کی اجازت نہ دے، وغیرہ وغیرہ۔ اب اگر آپ اس ڈیٹا بیس کا مزہ لینا چاہیں تو براہِ مہربانی مضمون کے آخر میں دیے گئے ویب لنکس سے رجوع کریں۔
اب آپ یہ سوچیں گے کہ پھر نیچر پبلشنگ گروپ نے سیدھا یہ کیوں نہیں کہا کہ چین کے اتنے زیادہ پیپرز واپس ہوئے ہیں؟ تو بھائی نیچر پبلشنگ گروپ بلین ڈالرز کا بزنس کرتا ہے اور چین اس بزنس کو سہارا دینے کے لیے ’اہم گاہک‘ ہے۔ نیچے ایک لنک موجود ہے جس میں نیچر گروپ کی حالیہ ڈیل پر ایک نظر ڈالیں۔ آخر میں یہ کہوں گا کہ ’سائنسی دنیا‘ کی کرپشن بہت انوکھی ہے۔ اس میں سب کچھ صاف نہیں ہے اور یہاں ایچ انڈکس، سائٹیشن، جنرلز رینکنگ، اوپن ایکسس، ریویو پراسیس، اور اس جیسے بیسوں مسائل موجود ہیں اور یہ پوری دنیا میں موجود ہیں۔ ابھی تک بہت سے ترقی یافتہ ممالک ان مسائل کا مناسب حل نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ ایسے میں وہ ملک جو اب سائنس کی جانب کچھ پیش رفت کرنے لگے ہیں ان سے یہ امید نہیں کرنی چاہیے کہ وہ ان مسائل سے دوچار نہ ہوں گے۔ پاکستان اور سعودی عرب پچھلے دس سال سے سائنس کی جانب آہستہ آہستہ پیش قدمی کر رہے ہیں اور بڑے پبلشنگ گروپز سے ایسا رسپانس آنا میرے لیے کم از کم سمجھ سے بالاتر نہیں ہے کیونکہ یہ پبلشنگ گروپز ان ممالک کی ریسرچ میں بھی اپنا حصے کا بزنس لینا چاہتے ہیں۔ اب بھی سمجھیں نہ کہ آخر وہ بھی تو بزنس کرنے ہی بیٹھے ہیں۔۔۔ باقی اگر حکومت اور عوام پاکستان میں سائنس کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو بے چارے پروفیسروں کو کم ازکم تنخواہیں بروقت دے دیں!
نیچر میگزین کی رپورٹ کے لیے لنک:
https://www.nature.com/
articles/d41586-023-03974-8
ڈیٹا ریٹریکشن کے بارے میں جاننے کے لیے لنک:
http://retractiondatabase.org/
RetractionSearch.aspx