ڈنکرک سے3 لاکھ برطانوی فوجیوں کا جرمن فورسز کے حصار میں آنے کے بعد بچ کر نکل آنا ناقابلِ یقین تھا۔ برطانوی حکام کو زیادہ سے زیادہ50 ہزار کے زندہ لوٹنے کی امید تھی۔فرانسیسی بندرگاہ پر محصور ہونیوالوں میں300ہندوستانی فوجی بھی تھے۔اس دستے کی کمانڈ میجر محمد اکبر خان کر رہے تھے جوتقسیم ہند کے بعد پاکستان میں میجر جنرل کے عہدے تک پہنچے۔اس دستے میں ایک اور انڈین فوجی ولی محمد تھے۔ انہوں نے ڈنکرک کے دلدوز منظر نامے کی عکاسی ایک انٹرویو کے دوران اس طرح کی۔’’جرمن طیارے خوفناک پرندوں کی طرح تھے جو ہر وقت سروں پر منڈلاتے۔ میں15دن سو نہیں سکا۔ ہر طرف آگ لگی ہوئی تھی۔ پورا شہر جل رہا تھا۔
ڈنکرک سے 50میل دور انسانیت کو دہلا دینے والا واقعہ رونماہوا۔90 برطانوی فوجی جرمن فورسز کے گھیرے میں آئے تو انہوں نے سفید پرچم لہرا دیا، ان کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے بعد ان سب کو کیپٹن برٹز کونچلین نے ایک گڑھے میں کھڑا کر کے مشین گنوں سے فائر کھلوا دیا۔جو مشین گن کی فائرنگ میں مرنے سے بچ گئے انہیں بندوق کی گولیوں اور سنگینوں سے ماردیاگیا۔اتفاق سے پولے اور اوکلاغان 2فوجی شدید زخمی ہونے کے باوجود لاشوں کے ڈھیر تلے دبے ہونے کے باعث زندہ بچ گئے۔ چند روز بعد وہ کسی اورجرمن دستے کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ 1943ء میں انہیں قیدیوں کے تبادلے میں رہائی ملی۔پولے نے لرزہ خیز داستان سنائی تو اس پر اعتبار نہ کیا گیا بعدمیں اوکلاغان نے تصدیق کر دی۔ جنگ کے بعد کونچلین کو جنگی ٹربیونل نے قصور وار ٹھہرایا۔ 1949ء میں اسے پھانسی دے دی گئی۔
فاتح اتحادیوں نے جنگی جرائم کے تحت مقدمات چلائے یہی جرائم ان کی طرف سے بھی سرزد ہوئے تھے چونکہ وہ فاتح تھے اس لئے جاپان اور جرمنی کیلئے جرم ضعیفی کی سزا کا اطلاق ’’طاقت کے قانون‘‘ کا تقاضا ٹھہرا۔ 18 اکتوبر 1945ء سے یکم اکتوبر 1946ء تک نام نہاد بین الاقوامی فوجی عدالت نے جنگی جرائم کے الزامات میں ہٹلر کے22 بڑے ساتھیوں کے خلاف مقدمات چلا کر 12 کو سزائے موت دے دی۔ ان میں ہانس فرینک، ہرمان گوئرنگ، ایلفریڈ روزن برگ اور جولیئس اسٹریخ شامل تھے۔ 3 کو عمر قید اور 4 کو 10 سے 20 برس تک کی قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ جاپان کے کئی جرنیلوں کو بھی موت کی سزا دی گئی۔ جنرل یاماشیتا نے سنگاپور کے محاذ پر جنرل پرسیول سے1 لاکھ 30 ہزار فوجیوں سمیت سرنڈر کرایا تھا۔ یاماشیتا کو بھی پھانسی دی گئی۔ اس کی صدر ٹرومین نے رحم کی اپیل مسترد کر دی تھی۔یاما شیتا کے آخری لمحات کی داستاں بڑی دلگداز ہے جو کبھی پھر سہی۔
ایڈولف آئخ مین کے مقدمہ نے بڑی شہرت پائی۔اس کیخلاف مقدمہ1961ء میں یروشلم میں چلا۔اتحادیوں کے مطابق آئخ مین ہولو کاسٹ کے دوران یورپ کی یہودی آبادی کی جلاوطنی کے سلسلے میں مرکزی کرداروں میں سے تھا۔ جنگ کے اختتام پر آئخ مین کو امریکہ میں گرفتاکیاگیا لیکن وہ 1946ء میں کیتھولک چرچ کے اہلکاروں کی مدد سے فرار ہو کر ارجنٹینا پہنچ گیا جہاں وہ ریکارڈو کلیمنٹ کے نام سے مقیم رہا۔ 1960ء میں اسرائیلی سیکیورٹی سروس کے ایجنٹوں نے آئخ مین کو پکڑا اور اسرائیل لے آئے۔ اس پر کیس چلا جس میں مجرم پایا گیا۔ اسے 31 مئی اور یکم جون 1962ء کی درمیانی شب پھانسی دے دی گئی۔ یہ واحد واقعہ ہے جب اسرائیل کی جانب سے سزائے موت پر عملدرآمد کیا گیا۔اس کیخلاف یہودیوں کے دلوں میں بھڑکتی آگ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے اس کی لاش جلا کر راکھ سمندر میں بہا دی گئی۔جنگی جرائم میں جرمن فیلڈ مارشل وِل ہیلم کیٹل کو بھی موت کی سزا دی گئی تھی۔
فیلڈ مارشل رومیل نے جنگ کے دوران ہٹلر کے خلاف بغاوت کی۔ اسے پیغام دیا گیا کہ کورٹ مارشل سے بچنے کے لیے وہ خود کشی کرلے تو اسے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن ہونے کا اعزاز حاصل ہو سکتا ہے۔رومیل کے پاس خودک کشی کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور پھر یہ بھی ہوا کہ ہٹلر نے خود بھی اپنے ہاتھوں سے اپنی جان لے لی۔جرمنی اتحادیوں کی غلامی میں چلا گیا۔ آج جرمن کافی حد تک آزاد ہو چکے ہیں۔ کچھ آج بھی خود کو سامراج کا غلام سمجھتے اور مکمل آزادی کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ ان کے’’ہیرو‘‘ہٹلر اور فیلڈ مارشل وِل ہیلم کیٹل جیسے افراد ہیں۔آج آزادی کی بات کرنیوالے یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے 7 دسمبر2022ء کو بغاوت کی کوشش کی اور اب قید میں ہیں۔یہ پہلی جنگِ عظیم میں ختم ہونے والی بادشاہت کی بحالی چاہتے ہیں۔گزشتہ دنوں 66 سالہ شخص پر بغاوت کی فرد جرم عائد کی گئی۔ٹرائل لکسمبرگ میں جاری ہے۔
جیسی بغاوت کی جرمنی میں کوشش ہوئی ایسی ہی ایک کاوش یا سازش 1995ء میں پاکستان میں بھی ’’خلافت آپریشن‘‘ کے نام سے ہو چکی ہے۔آپریشن خلافت نام سے1995ء میں کچھ مذہبی دائیں بازو کے فوجی افسروں نے اپنی طرف سے شریعت کے نفاذ کے لیے منصوبہ بنایا۔ اس آپریشن میں عمران خان کا پہلے ریحام خان اور بعد ازاں بشریٰ بیگم کے ساتھ دوبار نکاح پڑھانے والے اور اب عدت کیس میں گواہی دینے والے مفتی محمد سعید سمت300 لوگ شریک تھے۔ اس آپریشن کو میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی لیڈ کررہے تھے۔ان کے بعد دوسرے بڑے افسر بریگیڈیئر مستنصر باللہ تھے۔ پلاننگ کے تحت جنرل وحید کاکڑ کی سربراہی میں ہونے والی کور کمانڈر کانفرنس کے موقع پر آرمی چیف سمیت تمام کور رکمانڈروں کو گرفتار کرنا تھا۔ان کی گرفتاری کے ساتھ ہی میجر جنرل ظہیر الاسلام آرمی چیف بن کر خلافت کا اعلان کر دیتے۔ وزیر اعظم بینظیر بھٹوکی گرفتاری بھی منصوبے کا حصہ تھی۔ مولانا عبدالقادر ڈیروی صاحب نے تقریر تیار کر کے دیدی تھی۔
کرنل لیاقت راجہ منصوبہ سازی میں سرگرم تھے کہ ان کو جانے کیا خیال آیا کہ اعلیٰ کمانڈ یعنی اصل کمانڈکو منصوبے سے آگاہ کر کے سلطانی بن گئے اور پھر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ گرفتاریاں ہوئیں۔ جنرل وحید کاکڑ اور وزیر اعظم بے نظیر بھٹو شدید غصے میں تھے۔ بڑے افسروں کے لیے شوٹ سے کم سزا کے لئے تیار نہیں تھے۔ مگر مجرموں کی قسمت کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران وحید کاکڑ کی مدت پوری ہونے پر جنرل جہانگیر کرامت ان کے جاں نشیں ٹھہرے لہٰذا یہ لوگ بقول مستنصر باللہ موت کی سزا سے بچ گئے۔ بریگیڈیئر مستنصر بااللہ نے کتاب ’’آپریشن خلافت 95‘‘بھی لکھی جس میں آپریشن کی پوری تفصیل درج ہے۔ ان کو قید کی سزا ہوئی، سزا پوری کرنے پر رہا کر دیئے گئے۔قاری سیف اللہ اختر بھی منصوبہ سازوں اور گرفتار ہونیوالوں میں شامل تھے، رہائی کے بعد پاکستان، افغانستان اور دبئی رہے۔وہ افغانستان میں ڈرون حملے میں مارے گئے۔ سوال ہے کہ 300 لوگوں کے مابین بغاوت کی خبر خفیہ کیسے رہ گئی۔جب تک منتشر الدماغ لوگ موجود ہیں ایسی کوششیں اور سازشیں مزید بھی ہوسکتی ہیں مگر کامیابی سے ہم کنار ہو جائیں اس کا امکان ہر گز نہیں ہے۔