فضل الرحمن کا مینڈیٹ خیبر پی کے میں چوری ہوا، چیخیں سندھ میں مار رہیہیں۔ گورنر فیصل کنڈی
گورنر خیبر پی کے کے اس بیان سے ان کی ظرافت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ باوجود اس کے کہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے ساتھ ان کے مولا جٹ نوری نت والے ڈائیلاگ بھی روزانہ کی بنیاد پر میڈیا کی زینت بن رہے ہیں۔ یہ بھی ایک دردسری ہے مگر اس کے باوجود وہ دیگر سیاسی معاملات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں اور موقع کی مناسبت سے وار بھی کرتے ہیں۔ آج کل مولانا فضل الرحمن نے سندھ میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ گزشتہ روز انہوں نے کراچی میں ایک بڑی ریلی بھی نکالی جہاں انہوں نے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان بھی کیا۔ اب ظاہر ہے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جو مرکز میں مسلم لیگ نون کی اتحادی ہے۔ اب اگر فضل الرحمن حکومت کا تختہ الٹانے کے لیے میدان میں اترتے ہیں تو نقصان اتحادیوں کا بھی ہو گا۔ ویسے بات تو انہوں نے درست کہی ہے کہ جے یو آئی کا سب سے بڑا ووٹ بنک خیبر پی کے اور بلوچستان میں ہی ہے۔ خیبر پی کے میں پی ٹی آئی والوں نے صوبائی اسمبلی و قومی اسمبلی کی تمام نشستوں پر ہاتھ صاف کیا اور جے یو آئی کے حصے میں چند آئیں۔ مگر مولانا نے نہایت آرام سے یہ کڑوا گھونٹ نجانے کیوں پی لیا اور اْف تک نہیں کی۔ نہ بلوچستان میں ہارنے پر آنسو بہائے۔ تو پھر جہاں سے وہ ہارے جہاں سے ان کا مینڈیٹ چرایا گیا۔ یہ ان کو معلوم ہو گا مگر شور سندھ اور پنجاب میں مچایا جا رہا ہے۔ اس پر حیرت تو بہت سے لوگوں کو ہے مگر کھل کر فیصل کریم کنڈی ہی بولے ہیں اب فضل الرحمن کو چاہئے کہ وہ تحریک کا آغاز خیبر پی کے اور بلوچستان سے کریں۔ وہاں ان کو سامعین بھی بہت مل جائیں گے۔ سندھ اور پنجاب میں تو مدرسوں کے بچوں اور اساتذہ سے کام چلانا پڑے گا۔
عدالت کا کم عمر لڑکی کی شادی پر نکاح خواں کے خلاف کارروائی کا حکم
کم عمری کی شادی پر پابندی کے حوالے سے قانون بن چکا مگر اس کے باوجود ابھی تک قانون سے، سزا سے بے نیاز و بے خوف لوگ کم عمر بچوں کی شادی سے باز نہیں آ رہے۔ دیہات ہوں یا شہر، ہر جگہ شکایات عام ہیں۔ دیہات میں مخصوص مائنڈ سیٹ اور ناخواندگی کے باعث کم عمری کی شادی پر لوگ خاموش رہتے ہیں۔ اس لیے ایسی شادیوں پر خاص ردعمل سامنے نہیں آتا۔ نہ اسے برا سمجھا جاتا ہے۔ شہروں میں البتہ کہیں نہ کہیں اس حوالے سے اب شعور بیدار ہو رہا ہے اور کم عمری کی شادی کے بعدازاں مسائل پر غور کیا جانے لگا ہے۔ گھریلو مسائل، صحت اور اولاد کی تربیت کم عمر والدین کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنتی ہے۔ ویسے بھی شادی کے بعد گھر والے اپنی ذمہ داریاں خود اٹھانے پر زور دیتے ہیں۔ یوں یہ کم عمر جوڑا ابتدا ہی سے مالی اور ذہنی پریشانی اور مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے اور ان کی ازدواجی زندگی تلخ ہوتی ہے۔ اس لیے لڑکے اور لڑکی کی عمر کی حد مقرر کر کے حکومت نے تو اپنی ذمہ داری پوری کر دی مگر عوام اس سلسلہ میں زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ بیٹے کا سر پر سہرا سجانے کا شوق ہو یا بیٹی کی جلد رخصتی کا خیال۔ دونوں قانون سے بالاتر نظر آتے ہیں۔ کچھ مالی مجبوریاں بھی ایسا کرواتی ہیں ، کچھ خاندانی معاملات بھی۔ مگر یہ جو سرکاری نکاح خواں ہیں انہیں کیا علم نہیں کہ کم عمری کی شادی منع ہے۔ وہ کیوں باز نہیں آتے ، چند روپوں کے لالچ میں یہ کام کرتے ہیں۔ اس حساب سے تو والدین اور نکاح خواں تینوں ہی قابل گرفت ہیں۔ ساتھ ہی گواہوں کی فہرست بھی شامل ہو تو لوگ محتاط رہیں گے۔ اب دیکھتے ہیں نکاح خواں کے حوالے سے کیا ہوتا ہے اور آئندہ وہ اس کام سے باز رہتے ہیں یا نہیں…
آسٹریلیا میں باکسنگ کا مقابلہ۔م پاکستانی باکسر نے بھارتی حریف کو ہرا کر جیت لیا
اس وقت انٹرنیشنل کھیل کے میدانوں میں پاکستانی کھلاڑی جو کارکردگی دکھا رہے ہیں اس نے تو پوری قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ پہلے دبئی میں ہمارے باکسروں نے میدان مارا اور اب آسٹریلیا میں بھی پاکسنگ کے عالمی مقابلے میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے باکسر الیاس ہزارہ نے بھارتی حریف گرجیت سنگھ کو ہرا کر نگ ٹائم باکسنگ ٹورنامنٹ کا فائنل جیت کر گولڈ میڈل حا صل کیا۔ اس وقت باکسنگ کے کھیل میں بلوچستان کے یہ دو باکسر ہیرو بنے نظر آتے ہیں۔ پہلے شاہ زیب رند نے بھارتی حریف کو رنگ میں دھول چٹائی اب الیاس نے بھارتی باکسر کو مات دے کر میدان جیت لیا۔ اس کے علاوہ کراٹے میں بھی نوجوان پاکستانی کھلاڑیوں نے عمدہ کارکردگی دکھائی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو حکومتی سرپرستی کے بغیر یہ نوجوان جس طرح عالمی سطح پر ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ وہ قابل تعریف ہے۔ اگر انہیں سرکاری سرپرستی حاصل ہو جائے تو یہ غمِ زندگی اور غمِ روزگار سے بے نیاز ہو کر اپنی توجہ مکمل طور پر کھیل پر دے سکتے ہیں۔ اب حکومت پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے جس طرح اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ میں دوسرے نمبر پر آ کر چاندی کا میڈل جیتنے والی ٹیم کو بھرپور انعامات سے نوازا ہے ان کی حوصلہ افزائی کی ہے تو اب وفاقی حکومت اور بلوچستان گورنمنٹ بھی اپنے ہونہار کھلاڑیوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کرے تاکہ دیگر نوجوان بھی میدان میں آئیں۔ بلوچستان جیسے مسائل کا شکار صوبے سے اتنا اچھا ٹیلنٹ نکلنا ثابت کرتا ہے کہ وہاں کے نوجوان باصلاحیت ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھا کر ہی ہم ان کو پہاڑوں کی بجائے دنیا کے کھیلوں کے میدانوں کی راہ دکھا سکتے اور ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اب تو فٹبال اور کرکٹ میں بھی بلوچستان کے نوجوان نام کما رہے ہیں جو بہت خوش آئند ہے۔
کینیڈا میں فلمی طرز پر کارگو سے 20 ملین ڈالر کا سونا اور اڑھائی ملین ڈالر چرانے والا چور گرفتار
کینیڈا میں بھارتی پہلے ہی خلاف قانون کاموں کی وجہ سے بدنام ہو رہے ہیں۔ پھر بھارتی خفیہ ایجنسی کی مہربانی سے وہ اغوا اور قتل کی وارداتوں میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ خاص طور پر خالصتان تحریک کے سکھ رہنما?ں پر حملوں اور ان کے قتل میں بھارتی ملوث پائے گئے ہیں جن کو بھارتی خفیہ ایجنسی "را" ڈیل کرتی ہے۔ اس پر کینیڈا کی حکومت نے کئی افراد گرفتار بھی کئے اور بھارتی سفارتی عملے کو جواب بھی دیا۔ مگر بھارتی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آ رہے۔ اب گزشتہ روز کینیڈا میں ایک خالصتاً فلمی طرز پر ڈکیتی کی بڑی واردات ہوئی جس میں ایک بھارتی نڑاد شہری گرفتار ہوا ہے۔ موصوف نے نہایت فلمی انداز میں ہوائی اڈے کے کارگو کے جہاز سے آیا 20 ملین ڈالر کا سونا اور اڑھائی ملین ڈالر کی نقدی چرائی اور پھر واردات کا پتہ چلنے پر پولیس نے اطمینان کے ساتھ ملزم کو قابو کر لیا۔ یوں اس شاطر چور کی ساری منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ گئی۔ فلمی کہانیوں کی طرز پر تن تنہا کی گئی اس وادات سے پتہ چلتا ہے کہ جرائم پیشہ لوگ کہیں بھی واردات کر سکتے ہیں۔ خدا جانے اس نے یہ واردات ہالی وڈ کی انگلش فلم سے متاثر ہو کر کی یا کسی بھارتی فلم نے اس کا دماغ خراب کر دیا اور اس نے کینیڈا جیسے ملک میں یہ حرکت کی۔ بھارت میں کی ہوتی تو کچھ دے دلا کر کامیاب واردات کر کے کہیں بھی فرار ہو سکتا تھا کیونکہ وہ اپنی پولیس کے بارے میں بخوبی جانتا ہو گا مگر کینیڈا پولیس سے اب بچ نکلنا ناممکنات میں سے ہے۔ بہرحال واردات واقعی بہت دلیری کی تھی اور بڑی بھی۔ اس پر اس کے حوصلے کی داد دینا پڑتی ہے۔