وزیراعظم محمد شہبازشریف نے وزارت نجکاری اور نجکاری کمشن کے امور کے حوالے سے جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ نجکاری کے عمل میں شفافیت کو اولین ترجیح دی جائے، وزیر اعظم نے اجلاس کے آغاز میں ہی شرکاء پر واضح کیا کہ سٹرٹیجک سرکاری ملکیتی اداروں کے علاوہ دیگر تمام سرکاری ملکیتی اداروں کی نجکاری کی جائے گی۔ چاہے وہ نفع بخش ہیں یا خسارہ زدہ، ان کو پرائیویٹائز کیا جائے گا۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سرکاری ملکیتی اداروں کی نجکاری سے ٹیکس دہندگان کے پیسے کی بچت ہو گی اور اسی پیسے سے سروسز کی فراہمی کا معیار بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں بلکہ کاروبار اور سرمایہ کاری دوست ماحول یقینی بنانا اور اس حوالے سے سہولیات اور آسانیاں فراہم کرنا ہوتا ہے۔
ہر ادارے کی نجکاری کا فیصلہ، چاہے وہ منافع بخش ہے یا خسارے میں، کوئی معمولی فیصلہ نہیں۔ یہ بہت بڑا اوردور رس نتائج کا حامل فیصلہ ہے اور یہ فرد واحد کے کرنے والا فیصلہ بھی نہیں ہے۔ کل کوئی بھی عدالت جاسکتا ہے۔اس معاملے میں اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو ہوم ورک مکمل کرکے یہ معاملہ پارلیمنٹ میں لے جا ئے ،وہاں اس کے ہر پہلو پر بات کرنے اور اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ سٹریٹجک حکومتی ملکیتی اداروں سے مراد پاکستان کے دفاع سے متعلقہ ادارے ہیں۔یہ نہایت اہمیت کے حامل ادارے تعداد میں اتنے زیادہ نہیں ہیں۔خسارے میں جانے والے اداروں کی تعداد بھی زیادہ نہیں۔ یہ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جبکہ منافع بخش ادارے لا تعداد نہیں تو ان کی تعداد کافی زیادہ ہے۔وزیراعظم صاحب ان کی بھی نجکاری کرنا چاہتے ہیں۔
ہر ادارے کی نجکاری کا معاملہ کابینہ کے اجلاس میں بھی نہیں گیا بلکہ وزیراعظم نے یہ معاملہ وزارت نجکاری اور نجکاری کمیشن کے اجلاس میں رکھا جس میں وزیر دفاع و ہوا بازی خواجہ آصف، وزیر خزانہ و محصولات محمد اورنگزیب، وزیر تجارت جام کمال خان ، وزیر پاور اویس احمد خان لغاری، وزیر نجکاری عبد العلیم خان، وزیر پٹرولیم مصدق ملک، وزیر اقتصادی امور احد خان چیمہ، وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر رانا احسان افضل اور متعلقہ اعلیٰ سرکاری افسران نے شرکت کی۔اجلاس کے سامنے آنے والی تفصیلات سے لگتا ہے کہ ان سے مشاورت نہیں کی گئی اور انہوں نے بھی اس فیصلے کے سود و زیاں پر رائے دینا مناسب نہیں سمجھا۔
ریلوے، پی آئی اے، سٹیل ملز جیسے کئی ادارے حکومت پر بوجھ بن چکے ہیں۔ یہ ادارے ضرورت سے زیادہ ملازمین کے بوجھ تلے دب گئے۔ کرپشن بھی ان اداروں کی ناکامی کی ایک وجہ ہے۔پرائیویٹ سیکٹر میں ایسے ہی ادارے منافع کما کر دے رہے ہیں۔اس کی تازہ ترین مثال سیال ایئر لائنز ہے۔ سیالکوٹ کے تاجروں نے اپنی مدد آپ کے تحت پہلے سیالکوٹ ایئرپورٹ بنایا اور اس کے بعد سیال ایر لائنز کا آغاز کیا۔یہ ایر لائنز اب بین الاقوامی روٹس پر اپنی پروازیں شروع کر رہی ہے۔پاکستان میں نجی شعبہ میں چلنے والی دیگر ایئر لائنز بھی کامیابی سے اپنا کاروبار کر رہی ہیں لیکن پی آئی اے ڈوبتے ڈوبتے اب فروخت ہونے کی جانب جارہی ہے۔پاکستان کے ہر شہر میں چھوٹی بڑی سٹیل ملیں منافع بخش کاروبار کی صورت میں موجود ہیں لیکن ایشیا کی سب سے بڑی سٹیل مل اپنے ملازمین کا پیٹ ہی پالنے سے قاصر ہے۔اسی طرح پاکستان ریلویز ہے، وہ بھی کبھی سٹیل مل اور پی آئی اے کی طرح منافع بخش ادارہ تھا مگر اس پر بھی انہی اداروں کی طرح سایہ پڑ گیا۔وہ اب کبھی اپنے اخراجات پورے کر لیتی ہے ،کبھی منافع میں بھی چلی جاتی ہے۔ آج کل اس کی مالی پوزیشن بہتر ہے۔ اس کے اپنے اخراجات پورے کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر یہ صحیح ہاتھوں میں ہوتو یہ آج بھی منافع بخش ہو سکتی ہے۔
جو ادارے اپنا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے ان کی نجکاری میں تو ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خسارے میں جانے والے اداروں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے یا منافع بخش بنانے کے لیے ہر تدبیر اختیار کر لی گئی ہے؟ جو ممکنہ اصلاحات تھیں کیا وہ کی گئی ہیں؟۔ یا پھر ان کے بیچنے کا جواز پیدا کرنے کے لیے خسارے میں رکھا جا رہا ہے۔
ایک ڈھابے والا بھی تھوڑی سی انویسٹمنٹ کر کے اپنا گھر چلاتا ہے۔ ایک ڈھابے سے دوسرا،تیسرا اور پھر وہ ہوٹل بھی بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے مگر ہمارا روز ویلٹ ہوٹل گھاٹے میں جا رہا ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ وہی ضرورت سے زیادہ ملازمین اور کرپشن۔
خسارے میں جانے والے اداروں کی تو بلا تاخیر نجکاری کی ضرورت ہے مگر منافع بخش ادارے کس شوق میں فروخت کرنے ہیں۔ دوچار روز قبل آزاد کشمیر میں لوگ احتجاج اور مظاہرے کرتے گھروں سے باہر نکل آئے حکومت نے شروع میں صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ پانی سر سے گزرتا نظر آیا تو حکومت کی طرف سے کی گئی کوششیں بارآورثابت ہوئیں۔خسارے میں جانے والے اداروں کی نجکاری پر ان کے ملازمین احتجاج کریں گے مظاہرے کریں گے ان کے مظاہروں سے پہلے ان کو حکومت کی طرف سے مطمئن کرنا ضروری ہے شاید حکومت نے ایسی کوئی پالیسی بنائی بھی ہو۔جو ادارے منافع میں جا رہے ہیں ان کی نجکاری ہو گی تو ان کے ملازمین زیادہ جذباتی اور اشتعال میں بھی ہوں گے۔یہ احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ ان کو کنٹرول کرنا حکومت کے لیے مشکل ہو سکتا ہے۔کیا حکومت ان کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی گولڈن ہینڈ شیک جیسی پالیسی سامنے لائے گی؟ جس کے لیے ان اداروں کے ملازمین کی تعداد کو دیکھتے ہوئے کھربوں روپے کی ضرورت ہوگی۔جو انتظامیہ ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے میں مشکلات کا شکار ہو بجٹ کی تیاری کے لیے آئی ایم ایف کی ہر شرط ماننے پر مجبور ہو وہ گولڈن ہینڈ شیک کے لیے کھربوں روپیہ کہاں سے نکالے گی۔
بادی النظر میں مجوزہ نجکاری پالیسی کا مطلب ملک میں بیروزگاری کا نیا طوفان کھڑا کرنا ہے۔ اس سے پرائیویٹ سیکٹر مضبوط ہوگا اور ہزاروں سرکاری ملازمین بے روزگار ہو جائیں گے۔ یہ نگران حکومت کی پالیسی تھی جسے عوام کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ عوام میں اس وقت اپنے روٹی روزگار کے بڑھتے مسائل کے باعث پہلے ہی سخت بے چینی ہے۔ حکومت کی نجکاری پالیسی انہیں مزید برافروختہ کرے گی۔ منافع میں چلنے والے سرکاری اداروں کی فروخت اپنوں کو نوازنے کے ہی مترادف ہوگی۔ حکومت کو عوام کو مشتعل کرنے والے اقدامات سے بہر صورت گریز کرنا چاہئے۔
منافع بخش اداروں کی بھی نجکاری کا فیصلہ
May 16, 2024