حکومت سازی مکمل ہوئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن گزرے ہیں کہ اتحادی حکومت پر مخصوص نشستوں کی معطلی کی تلوار لٹک گئی ہے جس کے نتیجے میں ان کی اکثریت بھی داؤ پر لگی دکھائی دے رہی ہے۔ایک طرف اپوزیشن صرف خاص لوگوں سے مذاکرات کے ترلے کرتی دکھائی دیتی ہے تو دوسری طرف حکومت کی طرف سے آئندہ آئی ایم ایف پروگرام کی ابتدائی تیاریوں کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف سوائے سٹریٹیجک اداروں کے تمام قومی اداروں کی نجکاری کا حتمی فیصلہ کر چکے ہیں تاہم ابھی تک یہ گتھی سلجھتی نظر نہیں آتی کہ موجودہ حکومت کن شرائط پرانٹر نیشنل مانیٹری فنڈ سے طویل المدتی معاہدے کرنے جا رہی ہے۔تادم تحریر تو پنجاب کا کسان ابھی تک بے حال نظر آ رھا ہے اور پاسکو نے بھی دس دن سے کسانوں کو بار دانا دینا بند کر دیا ہے مگر با اثر افراد آج بھی دیگر ذرائع سے بار دانا حاصل کر رھے ہیں۔اس صورتحال میں اگر پاکستان کی فوڈ سیکورٹی کے ذمہ داروں نے مسائل کا ادراک کر کے کوئی ٹھوس حل نہ نکلا تو یہاں کسان کے بعد ہر دوسرا طبقہ احتجاج کرتا نظر آئے گا۔گندم کی بمپر کراپ کا فائدہ کسان کو تو نہیں۔ ہوا مگر ذخیرہ اندوزوں اور آٹا مافیا کو ضرور ہوا ہے اور اس دوڑ میں حکومت کو بھی لگے ہاتھوں نمبر ٹانکنے کا موقع مل گیا ہے اور پنجاب حکومت نے روٹی کی قیمت پہلے 16اور پھر 15روپے مقرر کر کے اس پر سختی سے عمل درآمد بھی کرا ڈالا مگر تندور مالکان نے روٹی سستی کر کے خمیری روٹی کے نرخ یکدم 20 سے بڑھا کر 25روپے کر دئیے ہیں جس پر پنجاب حکومت اور بالخصوص صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین کو فوری ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔
پیپلز پارٹی کی بات کریں تو پنجاب میں جیالے گورنر سردار سلیم حیدر کے آتے ہی جیالوں میں بھی جوش و ولولہ پیدا ہو گیا ہے۔ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کافی عرصے کے بعد گورنر ہائوس میں جیالوں کی مسلسل آمد سے گورنر ہائوس کی رونقیں بحال ہوگئیں ہیں۔گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر کی طرف سے گورنر ہاؤس کے دروازے پارٹی کارکنوں کے علاؤہ دیگر جماعتوں کے لیے بھی کھلے رکھنے کے اعلان کے بعد جیالوں کو بھی حوصلہ ہوا ہے کہ اب پنجاب میں وہ بھی اپنے گورنر کے پاس جا کر اپنے گلی محلے کے مسائل حل کرا سکیں گے۔گورنر پنجاب کی طرف سے عندیہ دیا گیا ہے کہ وہ عوام کے حقوق کا خیال کریں گے اور ان کی بہتری کے لئے جو اقدامات وہ کرسکیں وہ ضرور کریں گے۔مگر دیکھنا یہ ہے کہ اتحادی حکومت میں رہتے ہوئے پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنے قدم کیسے مضبوط کرتی ہے کیونکہ پنجاب میں پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف دونوں سے مقابلہ کرنا پڑے گا۔پیپلز پارٹی کافی عرصے سے پنجاب میں تنظیم سازی کررہی ہے مگر یہاں پنجاب میں انہیں کئی مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ اگرچہ پنجاب میں گورنر سردار سلیم حیدر آئینی عہدہ رکھتے ہوئے بھی تعاون بہم پہنچائیں گے اور پیپلز پارٹی کے پنجاب میں قدم مضبوط کریں گے۔اس کے ساتھ اگر دیکھا جائے تو چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر وسطی پنجاب میں "تنظیمی آپریشن" شروع کر دیا گیا ہے اور پہلے مرحلے میں راجہ پرویز اشرف اور انکے سیکنڈ ان کمانڈ سید حسن مرتضی نے نہایت سنجیدگی سے پارٹی تنظیموں میں نئی روح پھونکنے کے لیے لاہور سے تنظیم سازی کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔غیر فعال کی جگہ سرگرم اور مخلص کارکنوں کو کام کا موقع دیا جائیگا۔ پارٹی منظم کرتے وقت پرانے اور نئے چہروں کو ایک ساتھ اعتماد دینا ہو گا ورنہ صرف گورنر ہاؤس میں جیالا بٹھانے سے پارٹی کا بھلا ہو گا نہ کارکنوں کو کوئی فائدہ پہنچے گا ۔راجہ پرویز اشرف خود ایک پر یس کانفرنس میں کہہ چکے ہیں کہ تنظیم سازی میں نئی تنظیموں کو پھلنے پھولنے اور نئے چہروں کو کام کرنے کا موقع مل سکے گا۔تاہم اس سارے عمل کے لیے ضروری ہے کہ پارٹی کی مرکزی قیادت تنظیم سازی کے عمل میں ذاتی پسند نا پسند سے بچ کر اچھی شہرت والے پارٹی کے سینئر ارکان پر مشتمل باقاعدہ ری آرگنائزنگ کمیٹی کا اعلان کرے ۔پیپلز پارٹی کی طرف سے اس مرتبہ بھی پارٹی کو پنجاب میں یونین کونسل کی سطح پر منظم کرنیکا اعلان کیا گیا ہے مگر پارٹی کی ڈویڑنل،ڈسٹرکٹ،تحصیل اور سٹیج تنظیموں میں اتنی سکت اور صلاحیت نہیں کہ وہ اسے یونین کونسل کی سطح تک لیکر جائیں۔موجودہ حالات میں راجہ پرویز اشرف اور سید حسن مرتضی اگر پنجاب میں پیپلز پارٹی کو یونین کونسل کی سطح پر از سر نو منظم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ان کا نام پنجاب میں پیپلز پارٹی کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائیگا ور اس کا سب سے پہلا امتحان آئندہ ہونیوالے بلدیاتی انتخابات ہونگے۔