پانامہ سے پراپرٹی لیکس، پی آئی اے کی نجکاری پر اعتراض اور عبدالعلیم خان کا عزم!!!!!

پاکستان قرضوں کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے لیکن اس ملک کا حکمران طبقہ اندرون و بیرون ملک اس طرح جائیدادیں رکھتا ہے جیسے ملک میں شہد و دودھ کی نہریں بہتی ہوں، ٹھیک ہے کسی کے اندرون و بیرون ملک کسی بھی قسم کی کوئی جائیداد خریدنے پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے لیکن اس ملک کے کروڑوں لوگوں کا یہ حق تو بنتا ہے کہ وہ سوال کر سکیں کہ اے امیر شہر بتا یہ قافلہ کیوں لٹا، اے امیر شہر بتا میرا چولہا کیوں بجھا، اے امیر شہر بتا میرا بچہ بھوک سے کیوں مرا، اے امیر شہر بتا میرے والدین کا علاج کیوں نہ ہوا، اے امیر شہر بتا میری اولاد تعلیم کے زیور سے محروم کیوں رہی، اے امیر شہر بتا میری سوچ کو قید کیوں رکھا، اے امیر شہر بتا اس دولت کے ذرائع کیا ہیں، اے امیر شہر بتا وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم میں تیرا کردار کیا ہے، اے امیر شہر بتا ہمیں پینے کے لیے صاف پانی بھی میسر نہیں، اے امیر شہر بتا میرے ملک کا مزدور محنت کرتا کرتا مر جائے اور اس کے وارثوں کو کفن دفن کے لیے بھی دھکے کھانا پڑیں، اے امیر شہر یہ ناانصافی نہیں تو کیا ہے؟؟؟
میں ان بااثر افراد کی دولت، جائیداد، اثاثوں کی مخالفت تو نہیں کرتا، ہو سکتا ہے جائز ذرائع ہوں لیکن یہ سارے لوگ حکومت میں ہوتے ہوئے یا حکومتی شخصیات کی قربت میں ہی ترقی کیوں کرتے ہیں، حکمرانوں کو ہی تحائف کیوں ملتے ہیں اور تحائف بھی اس وقت کہ یا تو حکومت میں آ رہے ہوں یا حکومت سے جا رہے ہوں یا حکومت میں آنے والے ہوں یا پھر کسی کی حکومت کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہوں۔ کیا یہ صرف اتفاق ہے۔ ایسا کیوں ہے، جو بھی لوگ اس فہرست میں شامل ہیں کیا ان کے زیر انتظام چلنے والے اداروں میں لوگ خوشحال ہیں، کیا ان اداروں کے سینکڑوں لوگوں کو وہی خوشحالی میسر ہے، کیا تحائف وصول کرنے والے حکمرانوں نے عوام کو بھی آسان زندگی کا کوئی تحفہ دیا ہے یا نہیں۔ پراپرٹی لیکس کو کسی کے لیے بھی ایمانداری یا بے ایمانی کا پیمانہ تو نہیں بنایا جا سکتا نہ ہی پانامہ لیکس کو پیمانہ بنایا جا سکتا ہے لیکن یہ سوال تو ہو سکتا ہے کہ طاقتور افراد، حکمران طبقہ امیر اور ملک غریب کیوں ہوتا رہا۔ جس ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں اس کے وسائل کم ہو رہے ہیں اور دو تین فیصد افراد کی دولت، جائیداد، اثاثوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یعنی بااثر افراد تو مالی طور پر مضبوط ہو رہے ہیں اور ملک قرضوں کی دلدل میں پھنستا جا رہا ہے ۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ سب اچھا جا رہا ہو، ملک انتظامی طور پر بھی مضبوط ہو اور اسے قرضوں کی بھی ضرورت ہو۔ اس بدحالی کا ذمہ دار پاکستان کا عام شہری نہیں بلکہ یہی حکمران طبقہ ہے، اس میں سرکاری افسران کا بھی حصہ ہے۔ عام آدمی کے لیے تو دو وقت کی روٹی مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ اس لیے یہ سوالات ضرور سامنے آتے ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ جن جن لوگوں نے بھی جائیدادیں بنائی ہیں اس کی بنیاد تو پاکستان ہی ہے، سب کچھ پاکستان کی وجہ سے ہی کمایا گیا ہے، سب کچھ پاکستان سے ہی بنایا گیا ہے، سب آسائشیں اور سہولتیں پاکستان سے ہی حاصل کی گئی ہیں۔ کاش یہ مال و دولت بنانے والے کچھ خیال پاکستان کے کروڑوں لوگوں کا بھی کریں۔ اپنے اداروں میں کام کرنے والے سینکڑوں افراد کا بھی خیال کریں۔ ان کا طرز زندگی بلند کرنے پر بھی زور دیں۔ کہیں تو ملک کا خیال کریں، ملک کے قرضے اتارنے کے لیے بھی ویسی ہی حکمت عملی اور منصوبہ بندی تیار کریں جیسے اپنے اداروں کو مضبوط و خود مختار بنانے کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔ اپنی جائیدادیں بنانے والوں سے سوال ہے کہ ملک کے لیے بھی کچھ کریں۔ 
اتنے مالدار حکمران ہوں اور ملک قرضوں کے لیے عالمی اداروں کے سامنے ہو، اتنے مالدار حکمران ہوں اور ہم ہر وقت قرضوں کے لیے دوست ممالک کی طرف دیکھتے رہیں۔ یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے۔ اس کا بھی کوئی حساب بہرحال ہونا چاہیے۔ 
دوسری طرف سرکاری اداروں کی نجکاری اور اس عمل کی مخالفت کا کام زور و شور سے جاری ہے۔ وفاقی وزیر نجکاری و سرمایہ کاری عبدالعلیم خان کے مطابق "حکومت پی آئی اے سمیت چوبیس سرکاری اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کر چکی ہے۔ پی آئی اے سمیت تمام اداروں کی نجکاری میں شفافیت کو ہر قیمت پر یقینی بنائیں گے۔ پی آئی اے کی نجکاری کے لیے اہم بزنس گروپس نے دلچسپی ظاہر کی ہے۔ سرمایہ کاری کے فروغ میں چیمبر آف کامرس اور ایس آئی ایف سی کا اہم کردار ہے اور اس معاملے پر چیمبر آف کامرس حکومت کے شانہ بشانہ چلے ، بھرپور ساتھ دیں گے۔کاروبار کرنا یا چلانا حکومت کا کام نہیں، حکومت کی ذمہ داری کاروباری طبقے کو سہولیات فراہم کرنا ہے، کاروبار ہو گا تو ملک میں خوشحالی آئے گی اور اس سے عام آدمی کو بھی فائدہ ہوگا۔" 
عبدالعلیم خان کی موجودگی میں شفافیت تو ہو گی دوسرا وہ اس اہم معاملے میں پاکستان کے مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے آگے بڑھیں۔ عبدالعلیم خان ملکی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں اور اسی جذبے کے تحت سیاست میں ہیں۔ اس وزارت کے ذریعے وہ پاکستان کے دیرینہ مسائل حل کرنے کی اہلیت و صلاحیت رکھتے ہیں۔ ملک کے معاشی مسائل کو حل کرنے اور معاشی بیماریوں سے نجات ان کی ترجیحات میں ہے۔ وہ ملک کے عام آدمی کی خدمت کا عزم لیے ہوئے ہیں۔ ہر سطح کے لوگوں کی خدمت کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ وہ ملک کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے بغیر کسی دباؤ کے عقلمندانہ اور دلیرانہ فیصلے کریں گے۔ 
دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے رضا ربانی نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کی نجکاری کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد اور نجکاری کے خلاف احتجاج کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ رضا ربانی کہتے ہیں کہ "وفاقی وزیر خزانہ کو ایسنشل پالیسی کے حوالے سے معلوم نہیں، اداروں کی نجکاری ایسنشل پالیسی میں آتی ہے۔ کابینہ آئین کے تحت نجکاری کی اجازت دیتی ہے، اس معاملے کو مشترکہ مفادات کونسل کے سپرد کرنا چاہیے، جب تک وہاں سے منظوری نہیں ہوتی اس وقت تک پی آئی اے کی نجکاری غیر آئینی ہے۔ پی آئی اے اسٹریٹجک اثاثہ ہے، پی آئی اے کا نیشنل سکیورٹی کے حوالے سے کردار رہا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ نجکاری کی پالیسی بنائی ہے، نجکاری نے کبھی بھی مثبت نتائج نہیں دئیے۔ جہاں نجکاری کی گئی وہ ادارے بند پڑے ہیں۔"
رضا ربانی کا اپنا نقطہ نظر ہے لیکن کیا وہ یہ بتا سکتے ان کے دور حکومت یا ان سے پہلے اور بعد میں آنے والی حکومتوں کے دور میں پی آئی اے کی تباہی کی حیثیت کیا ہے، کیا وہ اس تباہی کو آئینی قرار دیں گے یا اس تباہی کا درجہ بھی غیر آئینی ہو گا۔ کچھ تو اپنے اداروں کا حال دیکھیں نہ تو حکومت خود چلائے نہ کسی کو چلانے دے۔ سیاسی حکومتیں اداروں میں سیاسی بھرتیاں کرتی رہیں، اداروں کے اخراجات میں اضافہ ہوتا رہے اور ملک منافع کے بجائے خسارہ میں جاتا رہے اس وقت کسی کو آئین یاد نہیں آتا۔ کیا ادارے کی آئینی حیثیت ضروری ہے یا اس کا وجود ضروری ہے۔ اداروں کی جتنی تباہی پاکستان پیپلز پارٹی کے مختلف ادوار میں ہوئی ہے اس کی بھی مثال نہیں ملتی۔ اس لیے رضا ربانی کو ہر وقت آئین کی مثالیں دیتے ہوئے تصویر کا دوسرا رخ بھی لوگوں کے سامنے رکھنا چاہیے۔ مطلب ادارہ تباہ ہوتا رہے اور آپ اس تباہی کو دیکھتے رہیں، کیا آئین ادارے کے کام میرٹ پر کرنے اور بھرتیوں کو ضرورت کے مطابق اور میرٹ پر بھرتیوں کا سبق نہیں دیتا، ہر جگہ آئین سے کھلواڑ کرنے کے بعد اب نجکاری کے وقت آئین کے پیچھے چھپنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ 
آخر میں نصیر ترابی کا کلام
وہ  ہمسفر تھا مگر اْس سے ہمنوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملال
شب  فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی
محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا
شکستہ دل تھے مسافر، شکستہ پائی نہ تھی
عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں مگر
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا بے وفائی نہ تھی
بچھڑتے وقت اْن آنکھوں میں تھی ہماری غزل
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی
کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن؟
صدا تو آئی مگر کوئی بھی دہائی نہ تھی
کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت
کبھی وہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی
عجیب ہوتی ہے راہِ سخن بھی دیکھ نصیر
وہاں بھی آ گئے آخر جہاں رسائی نہ تھی

ای پیپر دی نیشن