بھارت ہمارا مشرقی ہمسایہ تھا، اب مغربی ہمسایہ بھی ہے۔ اب کتابوں میں حدود اربعہ یوں بیان ہونا چاہیے کہ پاکستان کے شمال میں چین، جنوب میں سمندر، مشرق میں بھارت اور مغرب میں بھی بھارت ہے۔
افغانستان میں بی جے پی کے رہنما، معاف کیجئے گا، طالبان کے رہنما ملّا ہیبت اللہ کی حکومت ہے اور مغرب ہی میں بھارت نے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کا قبضہ بھی حاصل کر لیا ہے۔ یہ قبضہ بھارتی ریاستی ادارے ’’انڈیا پورٹس انٹرنیشنل نامی کمپنی‘‘ نے دس سال کیلئے لیا ہے۔ چاہ بہار بلوچستان میں ہے اور اس کے اردگرد سے بلوچوں کی ان گنت بستیاں خالی کرا کے پہلے ہی ’’را‘‘ اور بھارت کی سپیشل فورسز کے محفوظ اڈے قطار اندر قطار بنا دئیے گئے ہیں۔
چاہ بہار وسطی ایشیائی طویل ترین تجارتی شاہراہ کا سمندری ٹرمینل ہے۔ یہاں سے ایک ریلوے لائن تیزی سے زیر تعمیر ہے جو زاہدان میرجاوہ کرمان سے ہوتی ہوئی تہران جاتی ہے۔ یوں چاہ بہار اس سب سے بڑی ریلوے لائن سے مل جائے گا۔ یہی نہیں، میر جاوہ کے پاس سے ایک ریلوے لائن تیزی سے مشہد کی طرف نکالی جا رہی ہے۔ مشہد سے آگے ترکمانستان کو پہلے ہی ایک لائن جاتی ہے اور اس طرح چاہ بہار ترکمان ریلوے نیٹ ورک سے مل جائے گا جہاں سے وسط ایشیا کے تمام ممالک، پھر چین، روس، یوکرائن اور پورے یورپ کے ریل راستے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ ایرانی ریلوے نیٹ ورک مغربی افغانستان کے شہر ہرات سے بھی جڑا ہوا ہے۔ ایران نے بھارت کی مدد سے ہرات تک پٹڑی بچھا دی ہے۔ یعنی بھارت اب ایرانی، معاف کیئے گا، اپنی بندرگاہ چاہ بہار کے ذریعے افغانستان، وسط ایشیا اور یورپ تک تجارت کر سکے گا۔
پاکستان بس 90ء کی دہائی سے سوچے چلا جا رہا ہے کہ وہ جلال آباد تک پٹڑی بچھائے جہاں سے بھارت کو بھی افغانستان تک راہداری دے، اور پیسہ کمائے نیز خود بھی وسط ایشیا کے ساتھ تجارت کرے اور وسط ایشیا والے بھی پاکسان کے ذریعے بھارت، مشرق وسطیٰ تک آسان راستے سے تجارت کر سکیں لیکن وہ سوچے چلا جا رہا ہے اور امکان غالب ہے کہ 2090ء تک سوچے ہی چلا جائے گا۔ سی پیک شروع ہوا تو یقین تھا کہ چند برسوں تک گوادر سے چین تک اور پشاور سے کابل تک اور چمن سے قندھار تک ریلوے لائن بچھ جائے گی اور سبھی ممالک کے فائدے کا سنہرا دور شروع ہو گا لیکن کسی نے، 2014ء میں سی پیک پر پائوں رکھ دیا۔
یہ پائوں ابھی تک رکھا ہوا ہے، سی پیک کا غنچہ ہنوز شرمندہ شگفت نہیں ہو پایا۔ اور شہباز حکومت کی پالیسیوں سے لگتا ہے کہ سی پیک کو فریزر ہی میں رہنا پڑے گا، بدستور۔ (انشاء اللہ کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں)۔
ایک سنہری موقع روشن مستقبل کا ہم نے 1999ء میں کارگل کر کے گنوایا، دوسرا 2014ء میں، تیسرا موقع دینے کی مرضی قدرت کی ہے یا نہیں، کم از کم مجھے اس کا علم نہیں۔
_____
چاہ بہار کی بندرگاہ اب تک ایران کی سب سے بڑی بندرگاہ بندر عباس کو پس منظر میں دھکیل دے گی لیکن ابھی کچھ عرصہ اس کی اہمیت رہے گی کیونکہ نئی ریلوے لائنوں کی تعمیر تک ، وسطی اور مغربی ایران کو مال کی ترسیل کیلئے جو ریلوے نیٹ ورک درکار ہے، وہ بندر عباس سے ہی شروع ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ بندر گاہ فارس کی کھاڑی کے اندر ہے یعنی ہرمز کے ناکے سے ہو کر ہی جہاز آ جا پاتے ہیں جبکہ چاہ بہار ناکے سے باہر، کھلے سمندر میں ہے۔ پاکستان کی ابھی ٹھہرو، ذرا اور ٹھہرو کی پالیسی کی وجہ سے یہ صورت پیدا ہوئی کہ یاران تیز گام نے محمل کو جا لیا۔ گوادر پورٹ کی اب وہ اہمیت نہیں رہے گی، اگر وہ بن بھی جائے یعنی اس کا راہداریوں کا نیٹ ورک مکمل ہو جائے تب بھی۔ آپ کا کیا خیال ہے، صدی کے آخر تک یا اگلی صدی کے شروع تک یہ کام ہو جائے گا؟
غزہ میں قتل عام جاری ہے۔ اسرائیل نے امریکہ کی مرضی کے بغیر رفح پر حملہ کر دیا ہے اور امریکہ نے ’’ناراضگی‘‘ کا اظہار یوں کیا ہے کہ ایک ارب ڈالر کا مزید اسلحہ اسرائیل کو فراہم کر دیا ہے۔ ساتھ ہی کہا ہے کہ اسرائیل نسل کشی کا مرتکب ہرگز نہیں ہو رہا۔ مطلب یہ کہ غزہ کے فلسطینی اس کے نزدیک ’’نسل‘‘ کی تعریف میں آتے ہی نہیں۔
ادھر معجزہ کہہ لیجئے یا حیرت انگیز معاملہ کہ فلسطینی تو خیر سے تھوک کے حساب سے قتل ہو ہی رہے ہیں لیکن دو ہفتوں سے اسرائیل کی ’’قربانیوں‘‘میں ناقابل یقین اضافہ ہو گیا ہے۔ ہر روز 60,50 سے بھی زیادہ۔ اس گنتی میں آدھے مر جانے والے اور آدھے گھائل ہونے والے شامل ہیں۔
اسرائیل کیلئے یہ صورتحال سخت تشویش ناک اور تکلیف دہ ہے چنانچہ سعودی عرب ترکی اور مصر نے جنگ بندی کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
رفاہ سے ایک فلسطینی نوجوان جان بچانے کیلئے باڑ میں سے نقب لگا کر مصر کی حدود میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ مصری فوجیوں نے مار مار کر اس کی ہڈیاں توڑ دیں اور پھر واپس اسرائیلی فوجیوں کے حوالے کر دیا۔
____
دبئی لیکس بڑے غلط موقع پر ہوئی ہیں۔ نہ ہیں باجوہ و ثاقب نثار و فیض۔ ورنہ نوا ز شریف کو ازسرنو تاحیات نااہل کر دیتے۔ نواز شریف کی کوئی جائیداد دبئی لیکس میں سامنے نہیں آئی لیکن اس سے کیا فرق پڑتا تھا۔ پنامہ کیس کے ساڑھے نو سو ناموں میں بھی نواز شریف کا نام شامل نہیں تھا۔ لیکن نااہلی ہوئی۔ ساڑھے نو سو ناموں میں سے کسی کا ذکر دوبارہ کہیں آیا ہی نہیں۔
دبئی لیکس میں جن کی جائیدادیں آئی ہیں ، سیاستدانوں کی حد تک وہ پہلے سے اعلان شدہ ہیں۔ پرویز مشرف کی ڈیڑھ درجن بیوائوں یعنی ریٹائرڈ بزرگواروں کے نام بھی شامل ہیں جنہوں نے حق حلال کی تنخواہ سے بچت کر کے اربوں کی جائیدادیں بنائیں۔ فرح گوگی کی بھی اربوں کی جائیدادیں ہیں جو بقول گریٹ خان کے عشا کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرنے کی عادی ہیں۔ علیمہ خاں صاحبہ کے اثاثے بھی دبئی میں ہیں جن کا کہنا تھا کہ میرا کسی آف شور کمپنی سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں۔
معتبر ترین حضرات کے بقول پاکستان کے مایہ ناز پراپرٹی ڈان اور مافیا کنگ کے ’’ریکٹ‘‘ سے تعلق رکھنے والے درجن بھر میڈیا اینکر پرسنز کے اربوں (فی کس) کے اثاثے بھی دبئی میں ہیں لیکن انہیں چھپا لیا گیا۔
دبئی، نئے دور کا پومپی آئی، سدّوم بابلی۔