امریکہ میں علیحدگی پسند رجحانات، پس منظر، پیش منظر

 ہر ریاست کا اپنا آئین ہے جو بعض امور میں دیگر امریکی ریاستوں کے آئین اور قانون سے یکسر متضاد اور مخالف ہے۔ عیسائی مذہب امریکہ کو متحد رکھنے کےلئے ناکافی ہے۔ قطرینہ طوفان میں کالے متاثرین زیادہ تھے لہٰذا گوری عوام نے بھرپور تعاون نہیں کیا۔ یہی عوامی اور معاشرتی روئیے تاحال کارفرما ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ 20 ریاستوں میں علیحدگی پسند رجحانات نے امریکی شکست و ریخت کا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ اب امریکہ الٰہی آفات اور غیر معمولی حادثات اور واقعات کا دیس ہے۔ جہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر حالات کا دھارا نسلی فسادات میں ڈھل گیا ہے تو امریکہ میں نسلی فسادات غیر معمولی اقدامات کا پیش خیمہ ہوں گے۔ اوباما کالا ہے اور چھوٹا بش گورا ہے۔ بش نے اوباما کو ووٹ دیا اور گوری عوام نے مٹ رومنی کو ووٹ دیا۔ امریکی الیکٹورل کالے، گورے ووٹ میں پہلے ہی منقسم ہے۔ چھوٹے بش نے عوامی عدم تعاون اور ہنگاموں کے لئے آمرانہ منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ امریکی فوج نیو ورلڈ آرڈر کی پالیسی سے دستبردار نہیں ہو گی۔ اگر امریکی فوج سات سمندر پار امریکی ورلڈ آرڈر پالیسی کے مخالفین عراق و افغان کو مار سکتی ہے تو اپنے عوام کو نہتا کرکے مارنا بہت آسان ہے۔ امریکی نیو ورلڈ آرڈر پالیسی میں عالمی یہودی و صلیبی کے علاوہ بھارت اور اسرائیل شامل ہے لہٰذا امریکی ریاستی کمزوری یا شکست و ریخت نیو ورلڈ آرڈر پالیسی بھی بھرپور تبدیلی کا باعث نہ بن سکے گی۔ امریکی فوجی اسٹیبلشمنٹ اوباما کا جنرل میک کرسٹل کی طرح مذاق اور تمسخر اڑاتی ہے جبکہ چھوٹے بش نے اپنی الوداعی تقریب (2008) میں کہا تھا کہ اسے امریکی صدر سے زیادہ امریکی افواج کا سربراہ ہونا یاد رہے گا۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ امریکہ عالمی طاقت ہے اس کے مسائل کم اور وسائل زیادہ ہیں لہٰذا مسائل پر قابو پانے کے امکانات زیادہ ہیں۔ ویسے بھی تاریخ عالم شاہد ہے کہ عالمی طاقتیں یا بڑی سلطنتیں یکدم ڈھیر نہیں ہوتیں۔ جب برطانوی استعمار ختم ہوا تو برطانیہ کو امریکہ و روس نے سہارا دیا جب روسی استعمار ختم ہوا تو امریکہ و یورپ نے صلیبی روح کے تحت روس کو سہارا دیا۔ اگر امریکہ شکست و ریخت کا شکار ہوا تو امریکہ کی جغرافیائی وحدت کو سہارا دینے کے لئے بھارت اور اسرائیل کافی نہیں۔ نیز چینی امداد اور تعاون بھی امریکہ کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے سے نہیں بچا سکتا۔ البتہ امریکی فوجی اسٹیبلشمنٹ و نیٹو اور اتحادی افواج اپنا اثر و رسوخ جاری رکھے گی۔ یعنی امریکی جمہوریت کے بغیر بھی عالمی ہنود و یہود اور صلیبی اتحاد اور نیٹ ورک سرگرم عمل رہے گا۔ عوامی سطح پر ناروے کا آندرے، امریکہ کا ٹیری جونز اور خاکم بدہن خاکے بنانا اور اڑانا اسی اتحادی پالیسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ہندوستان میں مغل اسلامی سلطنت کی جغرافیائی شکست و ریخت میں تقریباً 150 سال لگے کیونکہ شہنشاہ ہند حضرت اورنگزیب عالمگیر کے بعد ہندوستان میں کوئی مغل شہنشاہ اتنا طاقتور اور دور اندیش نہ تھا۔ مگر امریکی شکست و ریخت کو سو ڈیڑھ سو سال نہیں لگیں گے۔ امریکہ انار کے دانے کی طرح ہے۔ ایک دانہ نکلا تو سب نکلتے چلے جائیں گے امریکی انا کے تانے بانے کو باندھنے والی مالی و فوجی طاقت افغان بلکہ عالمی مسلمان مجاہدین نے ختم کر دی ہے۔
امریکہ کے اندرونی مسائل بڑھنے سے امت مسلمہ اور پاکستان کو غیر معمولی ریلیف ملے گا۔ امریکہ و اتحادی ممالک پاکستان کی جغرافیائی شکست و ریخت، فوج اور ISI کے درپے ہیں۔ امریکہ اندرونی مسائل میں الجھنے سے پہلے پاکستان میں مذکورہ اہداف کا حصول چاہتا تھا مگر امریکی عوام نے اوباما کو دوبارہ منتخب کرکے امریکی عوام کی بھلائی کو ترجیح دینے کا پیغام دیا ہے۔ گو امریکی وفاقی حکومت کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا امکان نہیں مگر اوباما کی اندرونی ملکی پالیسی عوام کو ریلیف دینے کی ہے جس کے لئے اوباما کو بہت سے مالی و انتظامی مسائل کا سامنا ہو گا۔ امریکہ میں جمہوری وفاقی انتظامیہ سے زیادہ فوجی اسٹیبلشمنٹ طاقتور اور منہ زور ہے۔
اگر یہ بے لگام اسٹیبلشمنٹ جان ایف کنیڈی کو قتل کر سکتی ہے تو اب بھی اس کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں۔ آئندہ آنے والے دور میں امریکہ مزید ملکی اور اندرونی مسائل میں الجھ جائے گا جس کا حتمی نتیجہ پاکستان کے اندر مریکہ نواز مقتدر حلقوں کی کمزوری کی شکل میں ظاہر ہو گا اور نیشنلسٹ عناصر احباب اور احزاب کو سنبھلنے کا موقع فراہم کرے گا۔ اوباما کی پالیسی سمندری طوفان کے پس منظر میں دبے جانے والے بیان سے واضح ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ افغان جنگ ختم کی جائے اور ملکی مسائل کو ترجیح دی جائے۔ کیا اوباما کو ورلڈ آرڈر کی یہودی لابی زیادہ دیر برداشت کرے گی؟ اس سوال کا جواب وقت دے گا تاہمپاکستان کی اہمیت و افادیت لاریب ہے۔ (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن