یہ حقیقت ہے کہ حالت جنگ میں ہونے کی نسبت زمانہ امن میں رہنا کہیں زیادہ بہتر اور آسان ہوتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں اس طرح کا امن اور آسانیاں حاصل کرنا کہیں زیادہ مشکل چیلنج بن چکا ہے۔ پاکستان حالت جنگ میں ہے اب تک اس کی طرف سے امن کا کوئی منصوبہ سامنے نہیں آیا، اس کےلئے ایسی لیڈر شپ کی ضرورت ہے جسے جنگ کی قیمت اور نقصانات کا اندازہ ہو اور اس کے راستے میں رکاوٹ کا ادراک رکھتی ہو۔ اس قیادت کو اس کے بعد کوئی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہو گی اور ایسے فیصلے کرنا ہوںگے کہ امن کا قیام کس طرح ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ اس کو امن کے قیام کو دیر پا بنانے اور سہارا دینے کی قیمت اہمیت کا اندازہ لگانے کی بھی ضرورت ہو گی۔ اس کے بعد اسے اپنے طے شدہ اصولوں پر قائم رہتے ہوئے عمل درآمد کو یقینی بنانا ہو گا۔ خواہ اس کے راستے میں کتنی ہی مشکلات اور رکاوٹیں پیش کیوں نہ آ جائیں اور یہی حقیقی قیادت کا اصل امتحان ہو گا جو کچھ موجودہ وفاقی حکومت اپنے طاقت کے تین مراکز ایوان صدر وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کی مدد سے عمل درآمد نہیں کرا سکی۔ آج کل گلوبل پاور کی اصطلاح بھی مرکز نگاہ بنی ہوئی ہے۔ اکیسویں صدی میں کسی بڑی طاقت کی طویل مدتی منزل گذشتہ صدیوں کے برعکس رسائی ہے، فتح حاصل کرنا نہیں اور یہ رسائی اخراجات میں بے پناہ اضافے کا باعث بنتی ہے۔ جس کےلئے برطانیہ کی مثال ذہن میں آتی ہے جس کا موازنہ امریکہ کی اس مشکل سے کیا جا سکتا ہے جس کا اسے آج کل سامنا ہے۔1905ءمیں برطانیہ کا اقتدار اپنے پورے عروج پر تھا۔ اس کی معاشی خوشحالی ختم ہوتی جا رہی تھی اور اس کے خزانہ میں گلوبل سطح پر کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کی سکت نہیں تھی جس کی وجہ سے علاقائی چیلنجز اس کے اقتدار اور طاقت پر حاوی ہو رہے تھے آج جنگ اور امن کے اخراجات اور قیمت کے حوالے سے امریکہ کو بھی کچھ ایسی ہی صورت حال درپیش ہے اس کی دفاعی حکمت عملی تیزی سے زوال پذیر اور غیر مستحکم ہو رہی ہے اور اس پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس صورتحال کی روشنی میں پاکستان امریکہ کے درمیان مستقبل کی خارجہ پالیسی کے خدوخال طے کرنے کے فیصلے کرنا ہوں گے پاکستانی وفاقی حکومت کے کرتا دھرتا جن کو لیڈر کہنے میں میرے تحفظات ہیں، وہ حالات میں آنے والی تبدیلی کے لئے تیار نظر نہیں آتے ، یہ لوگ اپنی روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی دلچسپیوں میں اس قدر مگن ہیں کہ انہیں آنے والی بڑی تبدیلیوں کا احساس تک نہیں ہے۔ پاکستان میں ہر کوئی2014ءمیں نیٹو افواج کے انخلاءکی باتیں کرتا ہے ہر کوئی اس فکر میں مبتلا ہے کہ 67 ہزار امریکی فوجیوں میں سے کتنوں کی واپسی ہو گی اور پیچھے رہ جانے والی لڑاکا فوج کی شکل کیا ہو گی اور کیا یہ سپیشل فورسز انخلاءکے بعد جاری رہنے والی شورش پر قابو پا سکیں گی یا نہیں؟ لیکن کتنے لوگ ہیں جو اس مصیبت کے حوالے سے سوچتے ہیںجو اس تمام تر صورتحال کا باعث بنی ہے۔ کیا ہم جانتے ہیں کہ امریکی سیاست میں ڈالر کے حوالے سے ان کی معیشت اور سوشل پالیسی میں اکھاڑ پچھاڑ اور کمی بیشی کے کن کن موضوعات پر بحث مباحثے چل رہے ہیں۔
ہمیں اس بارے بالکل واضح ہونا چاہئے کہ اگر امریکہ اپنی گلوبل وژن کی پالیسی پر کاربند رہا کہ ورلڈ آرڈر کا انحصار اس پر ہے، تو اس کا نتیجہ امریکہ کےلئے معاشی دیوالیے کی صورت میں نکلے گا جس کے مناظر امریکی ڈپلومیسی عالمی ساکھ میں کمی اور فوجی آپریشنز کی صورت میںآہستہ آہستہ سامنے آ رہے ہیں۔ آج کے چین اور امریکہ کا موازنہ ماضی کے بسمارک کے دور کے ابتدائی جرمنی اور برطانیہ کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ دنیا کی بہت سی دوسری علاقائی طاقتیں اس خلاءکو پر کر رہی ہیں امریکہ کو جہاں سے تیزی سے پیچھے ہٹنا پڑ رہا ہے۔ وہ دن گئے جب امریکی فوج کی طاقت کی دہشت تھی۔ ہمیں جس چیز کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ کا مربیانہ فوجی نظام زیادہ مہنگا اور غیر یقینی ہو چکا ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ اجارہ داری کی حد تک انتہائی موثرگائیڈڈ سمارٹ بموں کی افادیت اور اثر پذیری بڑی حد تک کھو چکا ہے۔ اب فوجوں کی بندگاہوں، ہوائی اڈوں کے ذریعے پھیلانے کی پرانی تزویراتی حکمت عملی پر عملدرآمد کیا جانے لگا ہے جو زیادہ تیز اور آسان ہے۔ چین ایسا میزائل سسٹم تیار کر رہا ہے جو حرکت کرتے ہوئے اہداف کو بھی اپنا نشانہ بنا سکے گا اور چین اینٹی سیٹلائٹ اور سائیبر وار فیئر میں بھی دسترس اور مہارت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے جس کے سامنے امریکہ کا فوجی انفارمیشن سسٹم بے نقاب ہو جائے گا۔ موجودہ خطرناک مدافعتی سسٹم تک رسائی اور سہولت نہ دینا ہے۔ ٹھیک جس طرح برطانیہ کو سامنا کرنا پڑا تھا اور وہ بھاری بھرکم قول وقرار ، کم ہوتی استعداد اور ایک عظیم طاقت کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا۔
اس طرح اب امریکہ کو بھی ایسا ہی مرحلہ درپیش ہونے والا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب کہ تبدیلی کا یہ عمل آج ٹیکنالوجی کی ترقی، غیر ریاستی کرداروں مالی دشواریوں، زوال پذیر فوجی طاقت اور مقامی طور پر عالمی اجارہ داری کی دلچسپی اور رجحان میں کمی کی مختلف النوع وجوہات کی وجہ سے مالی دشواریوں کی وجہ سے امریکہ قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا جا رہا ہے۔ اندازہ ہے کہ 2010ءتک 146 بلین ڈالر کے قرضے کا حجم2020 ء میں آٹھ سو بلین ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ جبکہ امریکہ کا دفاعی مد میں خرچہ ایک سو بلین ڈالر سالانہ ہے۔ اس صورتحال کا نتیجہ لازمی طور پر امریکی پالیسیوں پر پڑے گا اور اس کی مہم جوئی کا سلسلہ متاثر ہو گا۔ ہمیں آنے والی اس صورتحال کا احساس اور ادراک کرتے ہوئے اپنے مستقبل کی بقا اور تحفظ کے لئے کوئی لائحہ عمل مرتب کرنے کی کوشش کرنا ہو گی تاکہ ہماری سرحدوں پر امن قائم رہے جو لوگ سوچتے ہیں کہ پاکستان نے دوستانہ پڑوسیوں میں دلچسپی کھو دی ہے اور پرامن پڑوسیوں کی موجودگی پر ہی قانع ہے، وہ غلطی پر ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کے بغیر دوسرے کا وجود ممکن نہیں، پاکستان کو اپنے علاقائی پڑوسیوں تک رسائی کے اثرات اور ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کے فوائد کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ پاکستان کے گرد گھیرا تنگ ہونے سے یقیناً اس کے امن کے قیام کے خواب پر اثر پڑے گا۔
جنگ کی قیمت
Nov 16, 2012