اسلام آباد (نوائے وقت نیوز) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ریکوڈک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ پاکستانی عدالت کسی کاغذی کمپنی کو تسلیم نہیں کرتی۔ دستاویزات بتائیں گی کہ کمپنی اصلی ہے یا کاغذی؟ لائسنس کب اور کیسے لیا؟ کس کو فروخت ہوا؟ یہ سب جاننے کیلئے دستاویزات ہمارے سامنے ہونی چاہئیں۔ گزشتہ روز چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ریکوڈک کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان امان اللہ کنرانی نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ قانون کے تحت ذخائرکی تلاش کیلئے ایک ہزار مربع کلو میٹر رقبہ دیا جاسکتا ہے لیکن قواعد میں نرمی کرکے 13 ہزار کلومیٹر رقبہ دیدیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر خودمختار ریاست اپنا مقدمہ ہی نہ لڑے تو اسکا کیا کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ بلوچستان حکومت سے دستاویزات طلب کی گئیں لیکن اس سلسلے میں معاونت نہیں کی جا رہی۔ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان امان اللہ کنرانی نے استفسار کیا کہ اگر ایک خودمختار ریاست کو عالمی ثالثی فورم لائسنس کسی اور کو دینے سے روکے تو خودمختار ریاست کیا کرے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر خودمختار ریاست اپنا مقدمہ ہی نہ لڑے تو اس کا کیا کیا جائے؟ انہوں نے کہا کہ ملکی عدالتوں اور مائننگ قوانین کیخلاف کوئی ثالثی نہیں ہوسکتی۔ سپریم کورٹ نے رضا کاظم کی بین الاقوامی ثالثی رکوانے کیلئے اضافی قانونی نکات پیش کرنے کی درخواست منظور کرلی۔ اٹارنی جنرل عرفان قادر نے عدالت سے استدعا کی کہ اس معاملے میں تمام فریقین کو سنا جائے جس پر عدالت نے تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب داخل کرنے کی ہدایت کردی۔ این این آئی کے مطابق سپریم کورٹ نے ریکوڈک گولڈ مائنز کیس میں عالمی ثالثی عدالت اور انٹرنیشنل چیمبر آف کامرس (آئی سی سی) کو ملکی قوانین میں مداخلت سے روکنے کیلئے پٹیشنز کے وکیل رضا کاظم کی درخواست سماعت کیلئے منظور اور فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تمام معلومات اور دستاویزات پیش کرنے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ کاغذی کمپنیوں کا بھید کھلنے کے ڈر سے شاید ریکوڈک کے حوالے سے ریکارڈ پیش نہیں کیا جا رہا۔ کیس کو بہتر طریقے سے سمجھنے کیلئے ضروری دستاویزات کی فراہمی ضروری ہے، دستاویزات کے مطابق کمپنی کاغذی ہے، پاکستانی عدالت کاغذی کمپنی کو تسلیم نہیں کرتی، بلوچستان حکومت ہماری معاونت کرے۔ مولانا عبدالحق بلوچ نے کہا کہ بین الاقوامی ثالثی عدالت کو اختیار نہیں کہ وہ اس کیس کی ساعت کرے۔ سماعت آج پھر ہو گی۔