پارلیمنٹ میں ان دنوں آئی ایس پی آر کے بیان پر بہت کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ ادھر حکومتی ترجمان کے جوابی بیان پر میڈیا اور اخبارات میں بھی بحث کا ایک سلسلہ چل نکلا ہے۔اس ساری صورت حال میں پیپلز پارٹی حکومت کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ پارلیمنٹ میں اعتزاز احسن نے حکومت کا بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے اور آئین کے دائرہ کار میں رہ کر تمام اداروں کو کام کرنے کی تلقین کی ہے۔ حکومت اور ان کے اتحادیوں کے نزدیک حکومت کے ماتحت ادارے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ حکومت کواپنا طرز حکمرانی بہتر بنانے کا مشورہ دے، فوج حکومت کا ماتحت ادارہ ہے لہذا ایسے حکومت کی خامیاں سر عام گنوانا غیر اخلاقی ہے۔ سینیٹرر رضا ربانی نے آئین اور پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کے لیے جلد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کی تجویز دی ہے۔ پارلیمنٹ کے مضبوط ہونے میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ وہ اپنے مفادات کا پورا پورا تحفظ کر رہی ہے۔ ان سیاست دانوں کے بیانات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ آئین اور پارلیمنٹ عوام کی جان و مال اور عزت آبرو سے زیادہ اہم ہے اس لیے دوسرے اجلاس میں اسی پر بات کی جائے گی۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے آئین پاکستان ایسی مقدس کتاب ہے۔ جس کا صرف نام لینا ہی باعث اجرو ثواب ہے، عمل درآمد کرنا نہیں۔ حکمران اپنے مفادات پر مبنی فیصلوں کے لیے اس کا رخ کرتے ہیں اور اپنی مرضی سے ترامیم کرا لیتے ہیں۔ جس مقدس آئین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اجلاس پر اجلاس ہوتے ہیں ذرا اس میں عوام کے حقوق کے ان آرٹیکلز کو بھی دیکھ لیجیے جنہیں سراسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ صرف ان آرٹیکلز پر زور دیا جاتا ہے جس میں ان کے مفادات کی بات ہوتی ہے۔جبکہ اسی آئین پاکستان میں آرٹیکل 9 بھی موجود ہے جو فرد کی سلامتی کو یقینی بنانے کی بات کرتا ہے , آرٹیکل 3 ہر قسم کے استحصال کے خاتمے پر عمل درآمد کی بات کرتا ہے , آرٹیکل 25 شہریوں کو قانونی تحفظ اور مساوی حقوق فراہم کرنے کے بارے میں ہے ,آرٹیکل ۱۱ غلامی کی ہر صورت کو ممنوع قرار دیتا ہے ,چائلڈ لیبرکو جرم قرار دیتا ہے ۔ آرٹیکل 38 دولت اور وسائل کی مساوی تقسیم ,عام آدمی کے معیار زندگی کو بلند کرنے ,کمزوروں ,بیماروں اور بے روزگاروں کے لیے وظائف دینے ,سودو ختم کرنے کے متعلق ہے۔ آرٹیکل 37 پسماندہ علاقوں کی تعلیمی اور معاشی ترقی, مفت لازمی تعلیم , فنی پیشہ وارانہ تعلیم کا فروغ, سستے انصاف کی فراہمی ,عصمت فروشی , قمار بازی ,ضرر رساں ادویات , فحش ادب اوراشتہارات کی طباعت اور نشرواشاعت کی روک تھام, نظم و نسق یقینی بنانے کے متعلق ہے۔ کیا پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں کو آئین میں لکھے گئے عوام کے حقوق پرمبنی یہ آرٹیکل نظر نہیں آتے ؟ ان آرٹیکلز پر عمل تو دور کی بات ہے, ڈسکس کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ جب آئین کے اس حصے کی روشنی میں حکمرانوں کی کارکردگی کی بات کی جاتی ہے اور طرز حکمرانی بہتر بنانے کا مشورہ دیا جاتا ہے تو فوراً جمہوریت اور آئین پاکستان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ حیرت ہے کہ ریاست کا ایک ادارہ یعنی عدلیہ تو حکومت کے اقدامات پر تنقید کرنے اور کارکردگی بہتر بنانے کا مشورہ دینے کا حق رکھتی ہے , ریاست کا کوئی دوسرا ادارہ یہ حق کیوں نہیں رکھتا؟ عوام جن کے کندھوں پر سوار ہو کر یہ لوگ پارلیمنٹ میں براجمان ہیں انہیں یکسر فراموش کر دیا گیا ہے۔ انکی کوئی بات نہیں سنتا۔ صورت حال یہ ہے کہ ملک کو چوروں اور ڈاکووں کے سپرد کر دیا گیا ہے۔چوروں اور ڈاکووں کے لیے دن رات برابر ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے غریبوں کی گزربسر مشکل ہو چکی ہے اور لوگ خود کشیوں پر مجبور ہیں۔ حکومتی اداروں میں غریبوں کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔کیونکہ ان کے پاس رشوت کے پیسے نہیں ہوتے۔ کیا ارباب اختیار کو یہ سارے مسائل نظر نہیں آتے؟ اگر عوام کے متعلق آئین میں دیئے گئے آرٹیکل ان کو اچھے نہیں لگتے تو ترمیم کر کے انہیں آئین سے ہی نکال دیں۔ وہ پارلیمنٹ جس کو مضبوط بنانے کے لیے زور دیا جا رہا ہے اس پارلیمنٹ کا ہر اجلاس ذاتی مفادات کی جنگ سے شروع ہوتا ہے اور بد زبانی اور بد کلامی پر ختم ہو جاتا ہے۔ ٹاک شوز میں بیٹھ کر بھی یہ وزیر مشیر ایک دوسرے پر الزام تراشی کے علاوہ کسی مثبت فکرکو پروموٹ کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ سارا سال ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں لیکن نام نہاد جمہوریت کے تحفظ کے لیے اکٹھے ہو جاتے ہیں ۔ آئین پاکستان ا ور پارلیمنٹ کے تقدس کو کوئی خطرہ نہیں اصل خطرہ مفادات کو ہے۔ عوام تو بھوک , مہنگائی , دہشت گردی , ٹیکسوں کے بوجھ اور چوروں ڈاکوئوں کے ہاتھوں مر بھی رہے ہیں اور غیر ملکی قرضہ جات کا بوجھ بھی اٹھا رہے ہیں۔ آئین کا جتنا بھی راگ الاپ لیں تمام جماعتیں سر توڑ کوشش کر کے نام نہاد جمہوریت بھی بچا لیں , لیکن ملک تب ہی بچے گا جب عوام کے مسائل حل ہوں گے , آرٹیکل 37 اور 38 پر عمل درآمد ہو گا , گڈ گورننس قائم ہوگی , نیشنل ایکشن پلان میں حائل رکاوٹیں دور کر کے اس پر عملدرآمد یقینی بنا یا جائے گا اور بلا امتیاز تمام صوبوں میں موجود کرپشن کے سرداروں اور دہشت گردوں کے سر پرستوں کا احتساب کیا جائے گا ۔ ورنہ جتنے بھی اجلاس اور فیصلے کر لیے جائیں اس سے عوام کی حالت نہ بدلی ہے اور نہ بدلے گی۔