وفاقی وزارت داخلہ کے کمیٹی روم میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ایف اے آئی کے افسران کی ’’کلاس‘‘ لے رہے تھے کہ اچانک وزیر اعظم ہائوس سے بلاوا آنے پر انہوں نے ایف آئی اے افسران کے ساتھ میٹنگ تیز رفتاری نمٹا دی ۔ وہ اپنی گاڑی میں بیٹھنے لگے تو میں ان سے استفسار کیا کہ ’’کیا آپ وزیر اعظم سے کورکمانڈرز کانفرنس کے بعد جاری ہونے والے ’’شکو ہ ،جواب شکوہ‘‘ کے پریس ریلز جاری ‘‘ ہونے سے پیدا ہونے والی گتھیاں سلجھانے کے لئے وزیر اعظم ہائوس جارہے ہیں تو انہوں نے ناراضگی کا اظہار کیا کہ آپ اس نوعیت کے سوالات کیوں کر رہے ہیں تاہم انہوں نے میرے اصرار پر کہا کہ’’میں تو دلوں کو جوڑنے والوں میں ہوں‘‘۔ میں نے اپنے ذرائع سے چوہدری نثار علی خان کی وزیراعظم سے ملاقات کی تصدیق کر لی اگلے ہی روز چوہدری نثار علی خان کی وزیر اعظم سے دوبارہ ملاقات ہوئی عام حالات میں وزیر اعظم سے کسی وزیر کی ملاقات اچنبھے کی بات نہیں لیکن جن حالات میں وزیر اعظم سے چوہدری نثار علی خان کی ملاقاتیں ہو رہی تھیں در اصل وہ غیر معمولی نوعیت کے تھے اس لئے ان ملاقاتوں کی اہمیت بھی بڑھ گئی یہ وہ ملاقاتیں تھیں جن کے بارے میں وزیر اعظم ہائوس کی میڈیا ٹیم نے کبھی کوئی پریس ریلز جاری کیا اور نہ ہی وفاقی وزیر داخلہ کے ترجمان نے تصدیق کی وزیر اعظم اور وفاقی وزیر داخلہ کے درمیان ’’ون آن ون‘‘ ہونے والی ملاقاتوں کو مصلحتاً مخفی رکھا گیا چوہدری نثار علی خان جو عسکری پس منظر رکھتے ہیں نے ہمیشہ حکومت اور فوج کے درمیان ’’پل‘‘ کا کردار ادا کرتے رہے ہیں کور کمانڈرز کانفرنس کے جاری ہونے والے اعلامیہ میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے دیر پا نتائج حاصل کرنے کے لئے ’’گڈ گورنس ‘‘کو ناگزیر قرار دیا گیا تو اپوزیشن نے اسے فوج کی طرف سے ’’گڈ گورنس ‘‘ کے حوالے سے ’’وارننگ ‘‘ قرار دیا ممکن تھا وزیر اعظم اس بیان پر کوئی رد عمل نہ دیتے لیکن جب اپوزیشن کی بعض جماعتوں نے فوجی قیادت کے اعلامیہ کی آڑمیں ’’سیاسی کھیل‘‘کھیلنا شروع کیا تو حکومت کو بھی اپنی ’’عزت ووقار ‘‘ کی خاطر اسی انداز میں بیان جاری کرنا پڑا جس انداز میں فوجی قیادت نے اپنا ’’پیغام ‘‘ بھجوایا ۔ حکومت اور فوج کے درمیان بعض ایشوز پر اختلاف رائے ایک معمول کی بات ہے جو وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان ہونے والی بند کمروں کی ملاقاتوں میں زیر بحث آتے ہیں اور ان ملاقاتوں میں زیر بحث آنے والے امور کے بارے میں کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی لیکن اب کی بار کچھ عجیب ہی ہوا فوجی قیادت کو جن امور پر تحفظات ہیں ان کا برملا اظہار کر دیا گیا پچھلے سوا دوسال کے دوران وزیر اعظم محمد نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے درمیان 62 ملاقاتیں ہوئی ہیں جن میں سے بیشتر ملاقاتیں’’ ون آن ون‘‘ تھیں جو ایک ریکارڈ تھیں ان ملاقاتوں کے باعث ہی یہ بات کہی جاتی تھی کہ سیاسی و عسکری قیادت ایک’’ صفحہ ‘‘پر ہے لیکن کور کمانڈرز کی حالیہ کانفرنس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ نے اس بھرم کا بھانڈہ پھوڑ دیا جسے قائم رکھنے کے لئے یہ تاثر دیا جاتا رہا ’’ سب اچھا‘‘ ہے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے تیار کردہ ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘کی سیاسی و عسکری قیادت نے توثیق کی پھر حکومت نے اس پلان پر عمل درآمد کی راہ میں حائل تمام قانونی مشکلات کو دور کرنے کے لئے نہ صرف قوانین میں ترامیم کیں بلکہ ان کی روشنی میں کئے جانے والے اقدامات کو آئینی تحفظ دیا پارلیمنٹ سے 21ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں بڑے پاپڑ بیلنے پڑے حکومت نے ’’ضرب عضب‘‘ کے لئے دل کھول کر وسائل فراہم کئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف جہاں فرنٹ لائن پر دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں وہاں ’’ضرب عضب‘‘ کو سیاسی قیادت کی بھر پور تائید حاصل ہے یہی وجہ ہے اس وقت سول حکومت میں وزیر اعظم محمد نواز شریف ، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو سے زیادہ ’’سیکیورٹی تھریٹ‘‘ ہے ۔فوجی قیادت کی طرف سے ’’گڈ گورنس ‘‘ کے حوالے سے پریس ریلیز کے ذریعے بیان جس طرح ’’نامناسب ‘‘ تھا اس کا حکومت کی طرف سے جواب بھی ’’غیر ضروری‘‘ تھا اگر حکومت فوجی قیادت کے بیان کو ہضم کر جاتی اور فوج کی طرف دیکھنے والی جماعتوں کی تنقید کو برداشت کر لیتی تو ممکن ہے یہ بات ابتدا میں ہی ختم ہو جاتی اور دونوں اطراف سے ’’بیان بازی ‘‘سے سلگائی گئی ’’آگ‘‘ پر پانی ڈالنے کے لئے چوہدری نثار علی خان کو جن کے عسکری قیادت سے قریبی تعلقات ہیں آگے نہ آنا پڑتا ۔ شنید ہے جب وزیر اعظم ہائوس سے کور کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیہ کے جواب وزیر اعظم ہائوس کی جانب سے جواب دیا جانے لگا تو چوہدری نثار علی خان نے جواب دینے کی بجائے در گذر کی پالیسی اپنانے کا مشورہ دیا لیکن وزیر اعظم ہائوس نے بیان جاری کر کے جہاں ضرب عضب کی کامیابیوں کا کریڈٹ پوری قوم کو دیا وہاں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد سب کی ذمہ داری قرار دی اور تمام ریاستی اداروں کو آئین کے اندر رہ کر کام کرنے کا درس دیا۔ اگرچہ وزیر اعظم محمد نواز شریف نے تمام وزراء اور مسلم لیگی رہنمائوں کو اس معاملہ پر بیان بازی سے روک دیا ہے لیکن ریاستوں و سرحدی امور کے وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل عبد القادر بلوچ جو اپنی سینیارٹی کے لحاظ سے عسکری قیادت سے قریبی تعلقات رکھتے ہیں نے کہا ہے کہ کور کمانڈرز کانفرنس کا ’’گڈ گورنس‘‘ کے حوالے سے اشارہ کراچی آپریشن میں صوبائی حکومت کے عدم تعاون کے بارے میں ہے ۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں کے دوران کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد جاری ہونے اعلامیہ نے پارلیمنٹ کے اندر اک طوفان برپا کر دیا تھا آئی ایس پی آر سے جاری ہونے والے اعلامیہ کی ’’حدت‘‘ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں محسوس کی گئی ہے بلکہ پارلیمنٹ نے اس کا باقاعدہ جواب دیا یہ بات قابل ذکر ہے حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کسی ذمہ دار شخصیت نے اس اعلامیہ پر تبصرہ نہیں کیا تاہم قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بھی محتاط انداز میں کور کمانڈرز کانفرنس میں’’ گڈ گورننس‘‘ کی بات کو حکومت کے لیے بہت بڑا اشارہ قرار دیا محمود خان اچکزئی کے بارے میں کہا جاتا ہے جہاں وہ ایک ’’دبنگ سیاست دان‘‘ ہیں وہاں ’’اَن گائیڈڈ میزائل کی طرح جو بھی زد میں آتا ہے اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں لگی لپٹی رکھے بغیر جو جی
میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں انہوں نے دونوں شریفوں کو ایک ’’صفحہ‘‘ پر ہونے کا مشورہ دیا ہے اور کہا ہے کہ’’ ا گر کوئی گڑ بڑ ہوئی تو وہ سویلین شریف کے ساتھ کھڑے ہوں گے‘‘ ۔ گورننس کے بارے میں اعلامیہ آئین کی روح کے خلاف ہے۔ محمود خان اچکزئی شروع دن سے سیاسی و عسکری قیادت کے ایک ’’صفحہ‘‘ پر ہونے کا مشورہ دیتے رہے ہیں ان کے بارے میں کسی’’ بے خبرے‘‘ نے خبر چلادی کہ انہوں نے وزیر اعظم کے ساتھ ناشتے پر ملاقات کے بعد قومی اسمبلی میں تقریر کی ہے لیکن اگلے روز ہی انہوں نے اس خبر کی تردید کر دی سینیٹ میں بھی کور کمانڈرز کانفرنس کا اعلامیہ موضوع بحث رہا چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے اس ایشو پر رولنگ دینے سے گریز کیا تاہم انہوں نے تمام اداروں کو آئین اور قانون کے دائرہ کار میں رہ کر اپنا کام مکمل کرنے کی تلقین کی انہوں کہا ہے کہ اگر حکومت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس نہیں بلا سکتی تو سینیٹ کا ’’ان کیمرہ اجلاس‘‘ ہی بلا کر اس میں ملک کی خارجہ پالیسی اور نیشنل ایکشن پلان پر بریفنگ اہتمام کر دے ارکان سینیٹ نے کھل کر کہا ہے کہ ’’ جمہوریت کی بقاء اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا جائے گا فوج کو جمہوری حکومت اور پارلیمنٹ کے سپروائزر نہیں بننا چاہیے‘‘۔پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کور کمانڈر کانفرنس کے پریس ریلیز کے ذریعے بیڈ گورننس کے ایشو کو اٹھانا’’ نا مناسب‘‘ تھا ہر معاملہ وزیراعظم اور آرمی چیف ملاقات میں اٹھایا جا سکتا تھا، یہی سوال آرمی کے بارے میں بھی پوچھا جا سکتا ہے۔قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن جو آئے روز حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے رہتے ہیں لیکن جب جمہوریت کی بات ہوتی ہے تو حکومت کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ کور کمانڈر اور آئی ایس پی آر کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ نواز شریف کی آئینی و جمہوری حکومت پر تنقید کریںمیری جتنی بھی کردار کشی کرلی جائے مگر جب بھی حکومت پر برا وقت آئے گا تو ہم ہی ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے لیکن پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے دوبئی سے اپنی پارٹی کے رہنمائوں کو اس ایشو پر مزید بیانات دینے سے روک دیا ہے معلوم نہیں وہ اس فیصلے سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں سر دست کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی وزیر اعظم محمد نواز شریف سے ہونے والی ملاقاتیں بالآخر رنگ لائیں گی اور وہ ماحول میں پائی جانے والی’’ گرما گرمی‘‘ پر پانی ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور کسی قوت کو موجودہ صورت حال سے فائدہ نہیں اٹھانے دیں گے اور دونوں اطراف پائی جانے والی غلط فہمیوں کو بھی دور کرنے میں کامیاب ہوںگے ۔