عوام کو دعو¶ں اور اعلانات کے سوا کیا ملا؟

صاحبو! پچھلے انتخابات ہونے کو تھے سیاسی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ کشکول توڑنے کا عہد کیا جارہا تھا توانائی کے بحران سے نمٹنے اور ملک کو مسائل سے چھٹکارا دلانے کے عوے کئے جا رہے تھے۔ تب پاکستان لہولہان تھا۔ ہر طرف بے گناہ انسانوں کا خون بکھرا پڑا تھا۔ بے بسی‘ بے یقینی اور مایوسی کی فضا پروان چڑھ چکی تھی عوام کا خیال تھا کہ سیاسی قیادت ملک کو مسائل کے گرداب سے نکالنے میں کامیاب رہے گی۔ اس لئے انہوں نے اپنے ووٹوں سے سیاستدانوں کے ہاتھ مضبوط کئے۔ موجودہ قیادت اقتدار میں آئی جمہوریت کو تسلسل ملا۔ اس سے پہلی حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی اب انہیں بھی اقتدار میں آئے ساڑھے تین سال کا عرصہ گزرچکا ہے۔ اس عرصے میں نہ کشکول ٹوٹا نہ معاشی انقلاب آیا نہ عوام کو سہولتیں میسر آئیں نہ لوڈشیڈنگ ختم ہوئی۔ اور نہ ہی نوجوانوں پر روزگار کے دروازے کھلے۔ اس عرصے میں دعو¶ں اعلانات اور زبانی جمع خرچ کے علاوہ عوام کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ امن و امان کا قیام تھا۔ ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی نے عوام کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں۔ آج کے حالات بھی تب سے مختلف نہیں کیونکہ آج بھی معصوم شہری دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی سے دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی مگر سچ یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ یہ ٹھیک ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں وقفہ دکھائی دیا۔ وقفہ جتنا بھی ہو دہشت گردی جب بھی ہو اس کا نشانہ تو بے گناہ انسان ہی بنتے ہیں۔ جمہوری حکومت کے ہوتے ہوئے کوئی ایک بھی شہری بے گناہ کیوں مارا جائے؟دیکھنا یہ ہے کہ کیاسیاسی قیادت نے کوئی ایسی حکمت عملی اپنائی جس سے دہشت گردی کا خاتمہ یقینی ہوتا؟ کہتے ہیں آپریشن ضرب عضب دہشت گردوں کی کمر توڑنے کا سبب بنا سچ ہے مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گرد ٹوٹی کمر کے ساتھ دہشت پھیلانے میں کس طرح کامیاب ہو رہے ہیں؟ حال ہی میں ایک ہی دن کے اندر ٹارگٹ کلنگ کی کئی وارداتیں ہوئیں جس میں کئی شہری لقمہ اجل ہوئے۔ کراچی میں ہی ایک گھر پر مجلس کے دوران فائرنگ کر کے ایک ہی خاندان کے ۵ افراد شہید اور کئی زخمی کر دئے گئے۔ کراچی کی موجودہ بدامنی ہمیں کیا پیغام دے رہی ہے۔ کہیں پاکستان مخالف قوتیں یہاں مضبوط تو نہیں ہو رہیں؟ ہم نے دیکھا کہ کوئٹہ پولیس ٹریننگ سنٹر بدترین دہشت گردی کا نشانہ بنا جس میں ۶۰ سے زیادہ نوجوان شہید اور ۱۵۰ کے قریب زخمی کر دئے گئے۔ کوئی ۶ ماہ پہلے وکلاءدہشت گردی کا نشانہ بنے جس میں ۸۰ کے قریب وکلا اور سکیورٹی اہلکار شہید کر دئے گئے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان وارداتوں کے پیچھے ہمارے دشمن کا ہاتھ تو نہیں۔ پانچواں درویش پھر بولا ہماری سیاسی قیادت کو آپریشن ضرب عضب کا کریڈٹ حاصل کرنے کی جلدی کرنے کی بجائے اپنے سیاسی کردار پر توجہ دینی چاہئے انہیں دیکھنا چاہئے کہ کیا نیشنل ایکشن پلان پر اسکی روح کے مطابق عمل کرایا جا سکا؟ کہیں ایسا تونہیں کہ ہمارے حکمران دہشت گردوں کے سہولت کاروں پر ہاتھ ڈالنے یا انہیں سزائیں دلانے میں ناکام رہے ہوں؟ یا دہشت گردوں کو فنڈ مہیا کرنے انہیں تربیت فراہم کرنے والوں کا کامیابی سے پیچھا نہ کیا گیا ہو؟ ہماری سیاسی قیادت خوب جانتی ہے کہ ہمارا دشمن ایک شاطر کھلاڑی ہے جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے کوئی بھی حربہ استعمال کر سکتا ہے۔ سی پیک کے منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے بھی وہ منصوبہ بندی کر چکا ہے۔ کہیں ہماری آپس کی لڑائی اسے تقویت تو فراہم نہیں کر گئی؟ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کا دوسرا بڑا مسئلہ توانائی کا بحران تھا جس نے آج تک عوام کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ ۲۰۱۳ءکے انتخابات میں چھوٹے میاں صاحب پہلی حکومت کے خلاف احتجاج کرتے دکھائی دئے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن مہینوں میں اس مسئلہ سے نمٹ لے گی مگر ایسا ہوا نہیں ۔ یہاں دیہاتوں میں تو آج تک بجلی صبح باقاعدگی سے جاتی ہے اور دوپہر تک واپس نہیں آتی۔ دوپہر کے بعد بھی یہ مستقل تشریف نہیں لاتی بلکہ اس کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ اب وزیراعظم پاکستان نے لوڈشیڈنگ کم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسے حزب اختلاف کادبا¶ سمجھیے یا پھر توانائی کی کھپت میں کمی کیونکہ سردی کا موسم شروع ہو چکا ہے پنکھے اور ائرکنڈیشن بند ہو گئے ہیں۔ اگر ہمارے حکمران بجلی کی پیداوار بڑھانے میں کامیاب ہو چکے ہوتے تو چند ماہ پہلے لوڈشیڈنگ کم کرکے عوام کو سہولت فراہم کر دیتے۔ چند ماہ پہلے تک تو یہ ۲۰۱۸ءکا خواب دکھا رہے تھے اس بیان کو سیاسی فریب ہی کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان کا تیسرا بڑا مسئلہ مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ تھا۔ یہ حکومت نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے میں قطعاً ناکام رہی ہے جہاں تک مہنگائی کا تعلق ہے وزیراعظم کا کہنا ہے کہ مہنگائی ختم ہو چکی ملک میں آلو ۲۵ روپے کلو مل رہے ہیں۔ انہوں نے پتہ نہیں بتایا کہ آلو اس بھا¶ کہاں فروخت ہو رہے ہیں۔ مان لیتے ہیں کہ آلو ۲۵ روپے کلو فروخت ہو رہے ہوں گے یہاں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بھا¶ بیچ کر آلو پیدا کرنے والے کاشتکاروں کو کیا ملا؟ ان کے ہاتھ تو لاگت بھی نہ لگی۔ جبکہ چینی سستی نہیں ہوئی کیونکہ یہ تو صنعت کاروں کے کارخانوں میں تیار ہوئی ہوتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...