ڈونلڈ ٹرمپ زلمے خلیل زاد کو اہم ذمہ داری سونپ سکتے ہیں،امریکی سکالر

Nov 16, 2016

اسلام آباد (جاوید صدیق) ممتاز امریکی سکالر ڈاکٹر مارون جی وین ہام نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں امریکہ کے سابق سفیر زلمے خلیل زاد کو مستقبل میں اہم ذمہ داری سونپ سکتے ہیں۔ امریکی سکالر نے جو پاکستان‘ افغانستان اور ایران کے امور کے ماہر ہیں اور ممتاز امریکی تھنک ٹینک ”مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ“ واشنگٹن سے وابستہ ہیں۔ گزشتہ روز امریکی سفارت خانہ میں صحافیوں کے ایک گروپ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ پاکستان کے لئے اقتصادی امداد کم کر سکتے ہیں ان کی اس خطے میں شاید زیادہ دلچسپی نہ رہے۔ مختلف استفسارات کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغانستان میں پاکستان کے بارے میں انتہائی منفی تاثر پایا جاتا ہے۔ وہ پاکستان کو اپنے داخلی مسائل کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ طویل عرصہ تک افغانستان اور پاکستان کے امور پر تحقیق کرنے والے امریکی سکالر کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لئے اہم کردار ادا کر سکتا ہے لیکن افغانستان میں تاثر یہ ہے کہ پاکستان افغان طالبان خاص طور پر حقانی نیٹ ورک اور دوسرے گروپوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔ امریکی سکالر کا خیال ہے کہ افغانستان میں امن کا قیام بات چیت کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ امریکہ کا خیال ہے کہ افغانستان میں اس کے قیام کے لئے کوئٹہ شوریٰ اور دوسرے طالبان دھڑوں سے بات چیت ضروری ہے۔ کیونکہ طالبان پرکوئٹہ شوریٰ کا بڑا اثر ہے۔ ایک سوال کے جواب میں امریکی سکالر نے کہا کہ گلبدین حکمت یار اور حامد کرزئی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے ذریعہ صدر اشرف غنی کی چھٹی کرا سکتے ہیں۔ گلبدین حکمت یار اور حامد کرزئی کی افغان پارلیمنٹ میں اثرورسوخ ہے وہ مل جائیں تو اشرف غنی کی حکومت کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ حامد کرزئی اشرف غنی کی حکومت کو مستحکم نہیں ہونے دے رہے۔ امریکی سکالر ڈاکٹر سے پوچھا گیا کہ افغانستان میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر کو وہ کس طرح دیکھتے ہیں تو امریکی سکالر نے کہا کہ بھارت اس لئے افغانستان میں دلچسپی لے رہا ہے کہ اسے خدشہ ہے کہ افغانستان میں طالبان اور انتہا پسند مسلمانوں کی حکومت پھر قائم ہو سکتی ہے اور اگر ایسا ہوا تو یہ بھارت کے لئے سنگین خطرہ ہو گا۔ کابل میں طالبان حکومت بھارت میں مسلمانوں کو انتہا پسندی کی طرف مائل کر سکتی ہے۔ پاکستان میں بھی انتہا پسند مذہبی گروپ زیادہ طاقتور ہو سکتے ہیں جو پاکستان کے لئے بھی ایک چیلنج ہو گا۔ امریکی سکالر سے پوچھا گیا کہ ملا اختر منصور جو افغان حکومت سے مذاکرات کے لئے تیار تھے انہیں امریکہ نے ڈرون حملے میں کیوں مار دیا تو ڈاکٹر مارون جی وین ہام نے کہا کہ ملا منصور طالبان کے بعض دھڑوں کا اعتماد کھو چکے تھے۔ انہوں نے ایک طویل عرصہ تک ملا عمر کی موت کی خبر چھپائے رکھی جس کی وجہ سے بعض طالبان گروپ ان پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔ وہ بات چیت کا عمل آگے بڑھانے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ امریکی سکالر کی رائے تھی کہ طالبان افغانستان کے ایک تہائی حصے کو کنٹرول کر رہے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ وہ طاقتور ہو رہے ہیں اس لئے وہ بات چیت نہیں کریں گے اور اگر کریں گے تو اپنی شرائط پر کریں گے۔ انہوں نے کہا صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں مزید پانچ ہزار فوج بھیج سکتے ہیں۔ کیونکہ افغانستان کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے امریکی فوج میں اضافہ ضروری ہے۔

مزیدخبریں