اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کی تحقیقات کے حوالے سے دائر درخواستوں کی سماعت میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین نواز نے مقدمہ سے متعلق دستاویزات جمع کرا دی، عدالت نے فریقین کو آپس میں دستاویزات کا تبادلہ کرنے اور ان کا جائزہ لینے کے لیئے دو دن کی مہلت دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت جمعرات کل 17نومبر تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فریقین نے اتنے دستاویزات جمع کروا دیئے ہیں ان پر چلے تو کیس کا فیصلہ ہونے میں سالوں لگ جائیں گے۔ سپریم کورٹ تحقیقاتی ادارہ نہیں، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ شریف فیملی کے پہلے جمع کرائے گئے دستاویزات اور قطر کے شاہ کے خط میں پیش کردہ موقف میں تضاد پایا جاتا ہے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ چیئرمین نیب خود ساختہ جلاوطنی پر چین چلے گئے ہیں، عدالت کو الف لیلیٰ کی کہانیاں نہ سنائی جائیں، پاکستان کے عوام سچ جاننا چاہتے ہیں، سچ کو دستاویزات کے ذریعہ دفن نہ کیا جائے ، سچ لازماً سامنے آئے گا۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید خان کھوسہ، جسٹس امیر ہانی مسلم، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 5رکنی لارجر بنچ نے درخواستوں کی سماعت کی تو درخواست گزار طارق اسد نے کہاکہ یہ بہت اہم مقدمہ ہے جسے دبائو میں آکر جلد نہیں نمٹانا چاہیے، چیف جسٹس نے کہا کہ اتنی جلد بازی نہیں ہو گی کہ کسی کے ساتھ ناانصافی ہو جائے، یہ درخواست 1947ء سے آنیوالے حکمرانوں نے جو جو بدعنوانی کی اور جو جو فائدے اٹھائے ہیں انکی تحقیقات سے متعلق ہے، یہ ہمارے لئے ممکن نہیں، سپریم کورٹ تحقیقاتی ادارہ نہیں ہے، اگر 800 افراد کیخلاف تحقیقات کرنا شروع کردیں تو 20 سال تک یہ کام ختم نہیں ہو گا ، سپریم کورٹ کو الگ سے پانامہ سیل کھولنا پڑیگا، عدالت نے طارق اسد کی دھرنا روکنے کی درخواست کو خارج کر دیا جبکہ کمشن نہ بنانے کی درخواست کے حوالے سے کہا کہ اس کا فیصلہ دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد کیا جائے گا، فاضل وکیل طارق اسد نے کہا کہ کم از کم حکومت اور اپوزیشن کے پارلیمنٹیرینز کی حد تک تو تحقیقات کی جائیں سب کو صفائی کا موقع ملنا چاہئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی باتوں سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ آپ درخواست گزار کی بجائے نواز شریف کی وکالت کررہے ہیں جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ درخواست گزار پی ٹی آئی نے مے فیئر فلیٹس کی بات کی تھی، اب ان کی جانب سے 6 ہزار 636دستاویزات جمع کرادی گئی ہیں، جن کا کیس سے کوئی تعلق ہی نہیں ، اخباری تراشے شواہد نہیں ہوتے، یہ الف لیلیٰ کی کہانیاں ہیں۔ اخبار پرانا ہو جائے تو اگلے روز ہی اس پر پکوڑے بکتے ہیں،، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم معاملہ کو محدود رکھنا چاہتے ہیں ، کیا بطور انسان اتنے کاغذات کا جائزہ لینا ہمارے لئے ممکن ہے، ہم انسان ہیں کمپیوٹر تو نہیں، جمع کرائی گئی کچھ دستاویزات غیر متعلقہ ہیں اگر ان پرفیصلہ نہ آیا تو کل فریق وکلاء کی جانب سے شکایت آجائے گی کہ فلاں دستاویزات کے حوالے سے عدالت نے کوئی فیصلہ نہیں دیا، طارق اسد نے کہا کہ فلیٹوں کے ساتھ ساتھ آف شور کمپنیوں کے چار پانچ مالکان کی حد تک تحقیقات کرلی جائیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ، ایف آئی اے اور ایف بی آر جیسے ریاستی اداروں کی ناکامی کا ملبہ عدالت پر نہ ڈالا جائے۔ جسٹس عظمت نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے تو آپ نے لندن کے فلیٹس کی تحقیقات کے لئے کہا تھا لیکن کاغذات 1980ء کے جمع کرا دیئے ہیں کیا آپ 1980ء سے احتساب چاہتے ہیں۔ حامد خان نے کہا کہ دستاویزات کا جائزہ لینا چاہتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے کہ دستاویزات کے بعد کیس لمبا ہو جائے گا ، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ آپ اپنی مرضی سے کارروائی نہ چلائیں لیکن دونوں جانب سے آنے والے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کارروائی نہیں چل سکے گی، اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین نواز کی طرف سے دستاویزات جمع کرادی ہیں، ان کے دو موکل بیرون ملک مقیم ہیں، یہ وزیراعظم کے بیٹے ہیں جبکہ ان کی بیٹی مریم کی جانب سے بھی جامع جواب جمع کروا دیا گیا ہے، اکرم شیخ نے سابق قطر کے شہزادے کی دستخط شدہ دستاویز عدالت میں پیش کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ میاں محمد شریف نے راشد المکتوم کی مدد سے دبئی میں بزنس شروع کیا ، راشد المکتوم وہاں کے حکمران تھے، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے دستاویز کا جائزہ لینے کے بعد کہا کہ یہ کاغذ سنی سنائی باتوں پر مشتمل ہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی جانب سے پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے موقف کے بالکل متضاد ہیں تو فاضل وکیل نے جواب دیا کہ میں ان کے تین بچوں کا وکیل ہوں ان کے وکیل سلمان اسلم بٹ ہی اس حوالہ سے جواب دے سکتے ہیں۔ سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ درخواست گزار عمران خان کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات 700صفحات پر مبنی ہیں ان پر دو دنوںکے اندر جواب الجواب دینا ممکن نہیں، جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ پاکستان کے عوام سچ جاننا چاہتے ہیں، سچ کو دستاویزات کے ذریعہ دفن نہ کیا جائے، بی بی سی کے مطابق وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل اکرم شیخ نے جمع کروائی گئی دستاویزات میں قطر کے شاہی خاندان کے رکن شہزادہ حمد جاسم کی جانب سے ایک خط عدالت میں پیش کیا جس کے مطابق شریف خاندان نے 1980 میں الثانی گروپ میں ریئل اسٹیٹ میں جو سرمایہ کاری کی تھی اس سے لندن میں بعد میں چار فلیٹ خریدے گئے تھے۔ اکرم شیخ نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ ایک ایسا خط پیش کرنا چاہتے ہیں جو محض عدالت کے لیے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر عدالت مناسب سمجھے تو اسے عام نہ کیا جائے لیکن جب قطر کے سابق وزیر اعظم اور شہزادے حمد جاسم بن جابر الثانی کی جانب سے لکھا گیا یہ خط عدالت کے سامنے رکھا گیا تو فوراً ججوں نے اس پر سوال اٹھانا شروع کر دیئے۔ حمد جاسم نے اپنے خط میں کہا تھا کہ ان کے والد کے مرحوم میاں محمد شریف کے ساتھ دیرینہ کاروباری مراسم تھے جو ان کے بڑے بھائی کے ذریعے چلایا جا رہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں خاندانوں کے درمیان آج بھی ذاتی تعلقات ہیں۔ حمد جاسم نے لکھا ہے کہ ’انہیں بتایا گیا کہ 1980 میں میاں محمد شریف نے الثانی خاندان کے قطر میں جائیداد کے کاروبار میں سرمایہ کاری کی خواہش ظاہر کی۔ میری دانست کے مطابق اس وقت دبئی میں کاروبار کے فروخت سے ایک کروڑ بیس لاکھ درہم دیئے۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے جواب میں کہا کہ جب یہ خط ریکارڈ پر آئے گا تو خود بخود عام ہو جائے گا۔ انہوں نے دریافت کیا کہ آیا قطر کی یہ شخصیت بطور گواہ عدالت میں پیش ہوسکیں گے؟ تو اکرم شیخ نے کہا کہ وہ اس بابت کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں۔ ’یہ دستاویز فی الحال قبل از وقت ہے۔ بینچ نے اکرم شیخ سے یہ بھی کہا کہ یہ خط سنی سنائی بات پر مبنی ہے اور یہ خط پیش کر کے 'آپ خود پھنس جائیں گے۔' قطری شہزادے کا مزید کہنا تھا کہ پارک لین، لندن میں ایون فیلڈ ہاؤس میں فلیٹ نمبر 17، 17 اے، فلیٹ 16 اور 16 اے دو آف شور کمپنیوں کے نام پر رجسٹرڈ تھیں اور ان کے سرٹیفکیٹ قطر میں رکھے گئے تھے۔ انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ’مجھے یاد ہے کہ اپنی حیات کے دوران میاں محمد شریف نے وصیت کی تھی کہ ان کی سرمایہ کاری اور اور جائیداد کے کاروبار کا منافع پوتے حسین نواز شریف کو ملے گا۔ اس مقدمے میں اس قطری خط کو کافی اہم قرار دیا جا رہا ہے جو ان لندن فلیٹس کے بارے میں رقوم کہاں سے آئیں کا بظاہر جواب ہے۔ حمد جاسم کا کہنا تھا کہ 2006ء میں الثانی گروپ اور حسین نواز کے درمیان اکاؤنٹس کو حتمی شکل دی گئی جس کے بعد ان فلیٹوں کے سرٹیفکیٹ حسین نواز کے حوالے کر دئیے تھے۔ اس بارے میں دوحا میں ریکارڈ موجود ہے۔ عدالت نے اس مقدمہ میں فریق بننے کے لئے آنے والی تمام درخواستیں مسترد کردی ہیں، دوران سماعت عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ سپریم کورٹ تفتیشی ادارہ نہیں ہے۔ وکیل اکرم شیخ نے 397صفحات پر مشتمل جوابات عدالت میں جمع کرائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ نیب اور دیگر اداروں کی ناکامی کا ملبہ ہم پر نہ ڈالیں، بدعنوانی یا کرپشن مقدمات کی سماعت کرنا سپریم کورٹ کا کام نہیں، عمران خان کی درخواست چار فلیٹس تک محدود ہے اس لیے اسے پہلے سنیں گے۔ جسٹس عظمت سعید نے تحریک انصاف کے وکیل حامد خان سے استفسار کیا کہ درخواست گزار نے سچ کو خود ہی دفن کردیا ہے، پی ٹی آئی کی دستاویزات میں اخباری تراشے شامل ہیں، حالانکہ اخبارات کے تراشے کوئی ثبوت نہیں ہوتا، اخبار میں ایک دن خبر ہوتی ہے اگلے روز اس میں پکوڑے فروخت ہوتے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ دو مرحلوں میں حکم جاری کیا جائے گا، اس لئے آپ تسلی رکھیں،کوئی بھی بچ نہیں پائے گا۔ عدالت نے متعلقہ خط لیتے ہوئے اس کا جائزہ لیا اور اصل خط اکرم شیخ کو لوٹاتے ہوئے ہدایت کی کہ اس خط کی نقول عدالت میں جمع کروا دیں اور فریقین کو بھی دیں۔ اکرم شیخ نے کہا کہ عدالت اجازت دے گی تو میں وضاحت کروں گا کہ کس طرح بیرون ملک اثاثے بنائے گئے ۔قبل ازیں وزیراعظم کے بچوں کی طرف سے پانامہ کیس میںسپریم کورٹ میں جمع کرا ئی گئی دستاویزات کے مطابق حسین نواز کمپنیوں کے مالک اور مریم صفدر انکی ٹرسٹی ہیں۔ ہارورڈ کینیڈی لا فرم نے ٹرسٹ ڈیڈ کے اصل ہونے کی تصدیق کی ہے اور یہ ٹرسٹ ڈیڈ حسین نواز کے حق میں کسی بھی برطانوی عدالت میں قابل قبول ہے ۔ عدالت کو جمع کرائے گئے شواہد اور دستاویزات کے مطابق ٹرسٹ 3 کمپنیوں کوومبر گروپ، نیسکول لمیٹڈ اور نیلسن لمیٹڈ کے حوالے سے قائم کیا گیا اور اس کا معاہدہ حسین نواز اور مریم صفدر کے درمیان ہوا۔ دستاویزات میں حسین نواز کو کمپنیوں کا بینیفشری جبکہ مریم صفدر کو ٹرسٹی ظاہر کیا گیا ہے، دستاویزات کے مطابق ٹرسٹی کا یہ معاہدہ 2 فروری2006 ء کو طے پایا۔