گوادر کی بجلی اکثر و بیشتر غائب رہتی ہے۔ ہسپتالوں کی حالت بھی اذیت ناک ہے۔ جان بچانے والی اور دیگر ادویات میسر نہیں۔ بچے کی پیدائش پہ لگنے والا ٹیکہ (BCG Voccine) تک دستیاب نہیں ہے۔ بیروزگاری، اس قدر بڑھ چکی ہے کہ صورت حال کو تشویشناک قرار دیا جاسکتا ہے۔
NTS کے لئے درجنوں نوجوان آئے ایک ہزار روپیہ فی امیدوار کے حساب سے فیس بھی دی۔ مگر آسامیوں کی تعداد مایوس کن حد تک کم تھی۔ غریب نوجوانوں نے مفت میں ہزار روپیہ کے حساب سے فیس بھری۔ڈگری کالج کے لیکچرار دیکھنے میں نہیں آئے Faculty غیر تسلی بخش ہے۔ اب تک گوادر ڈگری کالج کی Affiliation بلوچستان یونیورسٹی سے نہیں ہو پائی ڈگری کالج تربت سے ہی وابستہ ہے۔
وزیراعظم جونیجو نے ماہی گیروں کے لئے ایک کالونی تعمیر کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ کالونی اب تک نہ بن پائی۔ زمین پہ لینڈ مافیا نے قبضہ جما لیا۔ یہ ماہی گیر بہت حد تک ملک کی خوردنی ضروریات پورا کرتے ہیں۔ اور ان کی کوششوں سے غیر ملکوں سے زر مبادلہ بھی ہم حاصل کرتے ہیں۔ مگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ یاد رہے کہ بلوچستان فشریز کا صدر دفتر ایک طویل عرصہ اسلام آباد میں گوادر کے ماہی گیروں کے لئے سوشل سیکورٹیز بھی نہیں۔ مزدوروں کے لئے لیبر لاء ہیں۔ لیبر کورٹ ہے۔ مچھیروں کے لئے کچھ نہیں ہے سوشل سیکیورٹی کے تحت لازمی انشورنس مچھیروںکا حق سہی۔ مگروہ اس سے محروم ہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ مچھیروں کو رجسٹریشن دی جائے۔
لاقانونیت ایک الگ مسئلہ ہے، قتل و غارت اغواء اور لسانی بنیادوں پہ قتل عام ہے۔ حالانکہ وہاں بنگالی، افریقی اور دیگر ممالک کے محنت کش بھی کام کرتے ہیں۔ مگر صرف پنجابی مزدوروں کو ہی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سبب اس کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ گوادر کو ایک خطرناک بندرگاہ کے طور پر پیش کیا جائے دنیا کے متعدد ممالک بھی گوادر کی ترقی اور چین کی رسائی سے تشویش کا شکار ہیں اور چاہتے ہیں کہ امن عامہ کو بگاڑا جائے۔
ہر محب وطن پاکستانی کا مطالبہ ہے کہ گوادر کے عوام کو بنیادی سہولتیں دی جائیں۔ پینے کا پانی مہیا کیا جائے۔ کیا وہ صرف اپنے بچوں کو گودیوں کے چوکیدار ہی دیکھ پائیں گے؟ یا متعلقہ ادارے انہیں بھی تربیت دے کر اعلیٰ عہدوں اور ذمہ داریوں کی راہ دکھائیں گے۔
گوادر کا نام دو لفظوں گوات + در (ہوا کا دروازہ) سے بنا ہے۔ جبکہ پیاسے اور بھوک سے ہلکان گوادری اب اسے دوزۂ گوات (دوزخ کا دروازہ) کہنے لگے ہیں۔ حالانکہ جان ملٹن نے تو باور کروایا تھا کہ دوزخ کاتو دروازہ ہی نہیں ہوتا۔ یہ دروازہ گوادر میںکیسے جا کھلا؟ گمشدہ جنت کے وہ منتظر رہے تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت میں شامل سرک (کچھوائ) عناصر خول سے باہر نکلیں۔ باہر انہیں کوئی خوف نہیں ہوگا۔ گردن اٹھا کر اوپر دیکھیں۔ مختلف مسائل اور محکموں سے متعلقہ کمیٹیاں بنائیں، گوادر کے لوگوں کو ان میں شامل کریں۔ مشترکہ انتظامیہ (Particpative Management) کی راہ اپنائیں۔ تاکہ سبھی اس منصوبے میں شامل ہوں۔ ہاتھ بٹائیں باور کریں کہ یہ عظیم الشان منصوبہ ان کا اپنا ہے۔
بلوچستان کے صدیوں پرانے رواجی قانون کے مطابق جو تاحال نافذ العمل ہے۔ معاملات مہیڑھ یا جرگہ کے ذریعے طے کیے جاتے ہیں۔ گوادر کے عوام کو اعتماد میں لیا جائے۔ کمیٹیوں کے ممبران ان سے ہی لئے جائیں تاکہ گوادر کے عوام کو اطمینان ہو کہ بندرگاہ کی ترقی، پاک چائینہ اقتصادی راہداری کی تکمیل سے وہ کہیں اقلیت میں تبدیل نہ ہو جائیں۔ ان کی تہذیب ان کا کلچر نہ مارا جائے۔ غیر ملکی اور دیگر صوبوں سے آنے والے پاکستانی کہیں لوکل اور ڈومی سائل سرٹیفکیٹس بنوا کر (جوکہ ہمیشہ قابل فروخت رہے ہیں) ان کا معاشی قتل نہ کریں اور نہ ہی اپنے نام انتخابی فہرستوں میں ڈلوا کر الیکشنوں میں گوادر کو بے آواز کر دیں۔ گوادر کے لوگ اپنی تاریخ، زبان، ثقافت اور قومی تشخص محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ اتنی بڑی بندرگاہ کے عوام کو پینے کاصاف پانی تک میسر نہیں، اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اس وقت سمندری پانی میٹھا کرنے، پانی کے ذخائر بڑھانے کے لئے فوری طور پر بندوں کی تعمیر اور پاور پروجیکٹس شروع کرنے کی انتہائی ضرورت ہے۔ اپاجی سردار Seattle نے امریکی صدر کو 1855ء میں خط کے ذریعے متنبہ کیا تھا کہ ہماری زمین خریدے بغیر ہی جو اس پر قبضہ کرے وہ بھلا ہمارا دوست کیسے ہوسکتا ہے۔سرکار بابا کو یہی خط دوبارہ پڑھنے کی اشد ضرورت ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے دوسرے تمام علاقوں میں بلوچی کاروبار کرنے، جائیداد خریدنے اور ازدواجی اور سماجی روابط رکھنے پر کوئی پابندی نہیں وہ عام پاکستانیوں کی طرح ووٹ ڈالنے کا حق بھی رکھتے ہیں لاہور جیسے شہر میں ایک بڑی بس سروس بلوچ ٹرانسپورٹ کمپنی کے نام سے چل رہی ہے، لاکھوں بلوچی پورے پاکستان میں رہتے ہیں۔ پاکستان 22 کروڑ عوام کاملک ہے سب کو مل کر آگے بڑھنا ہے غربت اور دیگر مسائل کا حل بھی اجتماعی کوششوں سے نکلے گا۔ اگر قدرت نے بلوچستان اور خاص طور پر گوادر کے عوام کو خوش حالی کا راستہ دکھایا ہے تو پاکستان کے دشمنوں کے آلہ کار بن کر اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنا تو عقل مندی نہیں تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ جب دشمن اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ سب سے پہلے چن چن کر ان لوگوں کو راستے سے ہٹاتا ہے جن کی مدد سے اس کا مقصد پورا ہوا ہے۔ مشرقی پاکستان کی مثال سامنے ہے۔
(ختم شد)