کل جب میں لان میں پودوں کی صفائی کر رہی تھی تو میں نے دور سے دیکھا کہ میرا چھ سالہ بیٹا میری تین سال کی بیٹی کو جھولا دے رہا تھا۔ وہ اس کو بہت دھیرے دھیرے، بڑے پیار سے ہوا میں اونچا کر رہا تھا۔ اس کی نظریں اس کے چہرے پر تھیں وہ اس کے چہرے کی خوشی دیکھ کر خود بھی چہکنے لگتا اور جہاں وہ ذرا خوف زدہ ہوتی تو وہ جھولا روک کر اس کے سامنے کھڑا ہو جاتا۔ میں نے بڑھ کر اس کو بھی جھولے پر بٹھا دیا، ان چند ساعتوں میں نے ان کا انوکھا اور بے مثال رشتہ دیکھا اور مجھے احساس ہوا کہ میرے ان جملوں
’’بیٹا پہلے اسے دیکھنے دو وہ چھوٹی ہے‘‘
بیٹا پہلے اسے سُلا دوں وہ چھوٹی ہے‘‘
اور ’’بیٹا تم ہی سمجھ جاؤ وہ تو چھوٹی ہے‘‘
نے اس چھوٹے سے بچے کو وقت سے پہلے کتنا بڑا کر دیا کہ اب یہ ننھا بچہ بھیڑ میں میرا ہاتھ پکڑنے سے پہلے اپنی چھوٹی بہن کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے کہ وہ چھوٹی ہے۔