سینٹ میں مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کے درمیان ہر اجلاس میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ یقینی طور پر جمہوری حسن کے شایان شان نہیں۔ ہر دوسرے اجلاس میں فواد چوہدری یا مشاہد اللہ کے بیان پر ہنگامہ آرائی شروع ہو جاتی ہے اور اس طرح سے سینٹ کا ہر اجلاس شور شرابا کی نذر ہوتا ہے۔ کبھی اپوزیشن واک آؤٹ کرتی ہے تو کبھی حکومتی بنچوں سے شور شرابا سامنے آتا ہے۔ سینٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی تھے جن کا تعلق پیپلزپارٹی سے تھا۔ سینٹ کے حالیہ انتخابات سے پہلے سابق وزیراعظم نوازشریف رضا ربانی کو ایک مرتبہ پھر چیئرمین سینٹ بنانا چاہتے تھے۔ رضا ربانی نے چیئرمین سینٹ کی حیثیت سے اہم اور کلیدی کردار ادا کیا۔ یہی وجہ تھی کہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی ان کو پسند نہیں کر رہے تھے۔ پیپلزپارٹی کے اندرونی حلقوں کے مطابق رضا ربانی چیئرمین سینٹ کی حیثیت سے آصف علی زرداری کے احکامات کے باوجود بہت ساری پارٹی سرگرمیوں، تقریبات اور اجلاس میں شریک نہیں ہوتے تھے کہ ان کا مؤقف تھا کہ چیئرمین سینٹ کی حیثیت سے ایسی سیاسی سرگرمیاں ان کو زیب نہیں دیتیں۔ رضا ربانی کے دور میں سینٹ میں طلال چوہدری کو وزیرمملکت برائے داخلہ اور دیگر کئی وزراء کو کارکردگی کے بارے میں پوچھنے کے لئے بلایا جاتا رہا اور ان اجلاسوں میں چیئرمین سینٹ کی حیثیت سے رضا ربانی کے سوالات نے متعدد مرتبہ متعلقہ وزیروں کے پسینے چھڑوا دیئے اور پھر رضا ربانی کے چیئرمین سینٹ کے طور پر یہ بات وزراء کے زبان زدعام رہی کہ رضاربانی ایک قابل اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ سینٹ میں متعلقہ وزارتوں سے متعلق جس قسم کے سوالات کئے جاتے ہیں ان کا جواب دینے سے کئی وزراء قاصر ہیں۔ یقینی طور پر موجودہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی جن کے چیئرمین سینٹ منتخب ہونے کے بعد ایوان میں پورے زوروشور کے ساتھ یہ نعرے بلند ہوئے تھے کہ ایک زرداری سب پر بھاری وہ بھی ایک قابل سیاستدان اور چیئرمین سینٹ ہیں اور ان کی طرف سے سینٹ میں مسلم لیگ(ن) کی اکثریت کے باوجود کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ چیئرمین سینٹ کی حیثیت سے کچھ نہ کچھ کرنے کی اہلیت ضرور رکھتے ہیں اسی لئے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے گرد گھیرا تنگ ہونے کے باوجود وہ مسلسل چیئرمین سینٹ کی نشست پر براجمان ہیں۔ صادق سنجرانی کی طرف سے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کو بھی لازمی طور پر سینٹ میں حکومتی کارکردگی اور مختلف وزارتوں سے متعلق جواب دہی کے لئے مدعو کیا جاتا ہے لیکن ان کی سینٹ میں آمد کے بعد ہی ماحول جس انداز میں گرما جاتا ہے اور پھر اسکے اثرات کس انداز میں سامنے آتے ہیں اس کا سارا فائدہ فواد چوہدری کو ہو رہا ہے کیونکہ اگر سینٹ میں اس قسم کی ہنگامہ خیزی، تلخ جملوں کا تبادلہ اور واک آؤٹ وغیرہ نہ ہو تو پرامن اجلاس کی کارروائی کے دوران اپوزیشن بنچوں سے حکومتی کارکردگی کے بارے میں ہر سوال کا جواب فواد چوہدری کو خندہ پیشانی سے دینا ہو گا اور پھر کئی امور پر یقینی طور پر حکومتی غفلت اور کج ادائی کی ہزیمت کا سامنا بھی فواد چوہدری کو کرنا پڑے گا لیکن فواد چوہدری کمال مہارت سے اپوزیشن بنچوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسلم لیگ(ن) اور کبھی کبھار پیپلزپارٹی کے بارے میں ایسی بات کر دیتے ہیں جس سے ہنگامہ آرائی، غیر پارلیمانی جملوں کا استعمال شروع ہو جاتا ہے اور پھر متعدد مرتبہ اپوزیشن واک آؤٹ کر جاتی ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فواد چوہدری اپوزیشن کی غیر موجودگی میں حکومتی موقف تو واضح کر دیتے ہیں لیکن کارکردگی کا احوال کسی جملے یا سطر میں سننے کو نہیں ملتا۔ یہ معاملہ تو فواد چوہدری کا رہا جیسے گزشتہ روز انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) والوں نے بابا فرید شکرگنجؒ کی زمین کو بھی نہیں چھوڑا جس پر احتجاج اور ہنگامہ آرائی کے بعد اپوزیشن واک آؤٹ کر گئی مگر سینیٹر مشاہداللہ جس قسم کا کردار سینٹ میں فواد چوہدری کی موجودگی اور غیر موجودگی میں ادا کر رہے ہیں اس کا کیا مقصد ہے، سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ اپوزیشن کو مشاہداللہ یا اپنے کسی دوسرے سینیٹر کی صورت میں فواد چوہدری یا کسی بھی حکومتی وزیر یا ذمہ دار کو سینٹ میں مدعو ہونے پر اپنے سوالات کے ذریعے چارج شیٹ کرتے ہوئے ایسا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے جس پر سینٹ سابقہ چیئرمین سینٹ رضاربانی کے دور کی طرح ایک موثر قانون ساز ادارے کی طرح ابھر کر سامنے آئے، جس میں غیر جمہوری سرگرمیوں اور سابق آمروں کو بھی آئین اور قانون کے مطابق للکارا جاتا تھا لیکن سینٹ پر کسی کو انگلی اٹھانے کی جرأت بھی نہیں تھی۔ گزشتہ روز کے اجلاس میں بھی بار بار چیئرمین سینٹ کے روکنے پر فواد چوہدری اپنے روایتی انداز میں برسرپیکار رہے اور بالاخر انہوں نے چیئرمین سینٹ کو کہہ دیا کہ میں آپ کا موڈ دیکھ کر بات کرتا ہوں۔ کیا واقعی چیئرمین سینٹ کا موڈ دیکھ کر حکومتی وزراء سینٹ میں بھڑکیں لگا رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ صادق سنجرانی آصف علی زرداری، فریال تالپور اور انکے دیگر قریبی لوگوں کے گرد گھیرا تنگ ہونے کے باوجود چیئرمین سینٹ کی نشست پر براجمان بیٹھے ہیں۔
سینٹ کا ماحول اور چیئرمین سینٹ کی کرسی
Nov 16, 2018