محمد قاسم بھٹہ
الحاج حضرت مہر محمد صوبہؒ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ مرتضائیہ لاہور کے عظیم بزرگ ہیں۔ آپ کا سالانہ عرس مبارک ہرسال 6,5 ربیع الاول کو آپ کے مزارِ مقدس واقع قبرستان میانی صاحب بہاولپور روڈ پر منایا جاتا ہے جو کہ مخزنِ انوارو تجلیات اورمرجعِ خلائق ہے۔ آپ مرشدِ بے مثال فنافی الرسول حضرت خواجہ مرتضیٰ صاحب المعروف پیر صاحب قلعہ شریف والے مدفناً فاروق گنج لاہور کے خلیفہ¿ اول تھے۔ آپ ایک درویش کامل تھے اور عشق رسول میں ہر وقت مستغرق رہتے تھے۔ آپ کی عظیم روحانی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ اللہ پاک نے اپنے حبیب کے صدقے اور ان کے پیرِ کامل کے ذریعے اپنے کرم اور عنایات سے اس قدر ہزاروں افراد نے اس برصغیر پاک و ہند اور افغانستان میں آپ دستِ حق پرست پر بیعت کرکے فیض حاصل کیا۔ یہاں تک کہ غیر مسلموں نے بھی اسلام قبول کر کے آپ حلقہ¿ ارادت میں شمولیت اختیار کی اور ہر شخص کوصفائیِ قلب، حلاوتِ جان،چاشنئیِ عبادت، دردِ دل اور عشقِ رسول حاصل ہوا۔
آپ لاہور کے مشہور آرائیں خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کا سنِ ولادت 1835ءقیاس کیا جاتا ہے جبکہ آپ کی وفات 8 فروری 1945ءکو ہوئی۔ اس طرح آپ نے 110 سال کی عمر پائی۔ آپ اندرون دہلی دروازہ چوہٹہ قاضی اللہ داد (موجودہ کوچہ حضرت مہر محمد صوبہ) میں سکونت پذیر تھے۔ زندگی کے کچھ حالات ان کے اپنے دستِ مبارک سے لکھے ہوئے وصیت نامہ سے معلوم ہوتے ہیں، جو انہوں نے حج بیت اللہ سال 1919ءمیں روانگی سے قبل اپنے صاحب زادوں کی خواہش پر لکھے۔ انہوں نے اپنے آبائی پیشہ زراعت و کاشتکاری کو ہی ذریعہ معاش بنایا۔
آپ سر پر پگڑی باندھتے کرتہ اوردھوتی زیبِ تن فرماتے اور اپنے مریدوں کے حلقہ میں اس طرح گھل مل کر بیٹھے کہ یہ پہچاننا مشکل ہو جاتا کہ پیر کون ہے اور مرید کون؟
آپ شب بیداری اورنمازِ تہجد کی ادائیگی میں ذرا بھی ناغہ اور بے قاعدگی نہ کرتے۔ ان کے اندر کا ذوق و شوق ان کو روزانہ بیدار رکھتا دعا فرماتے تھے کہ یا اللہ! جس دن میری نمازِ تہجد قضا ہو وہ میری زندگی کا آخری دن ہو۔ آنکھوں میں کچھ ایسی بجلیاں پوشیدہ تھیں کہ کسی کو نظر ملانے کیتابنہ ہوتی کیونکہ حضور کے ہجر و عشق میںآنکھیں ہروقت اشکبار رہتی، یہاں تک کہ آخری عمر میں بینائی جاتی رہی۔ آپ نے پنجابی زبان میںاپنے پیرومرشد کا ذکر کرتے ہوئے محبتِ رسول میں ”نعت ہجرِ رسول اور عارفانہ کلام پر مبنی ”سہ حرفی رموزِ طریقت“ لکھی۔ اس کلام میں ان کے فنا فی الشیخ اور فنا فی الرسول ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ ہمیشہ نماز کی پابندی، حصولِ رزق کے لئے جدوجہد پیہم ، سخت محنت اور کاروباری اپنانے کی تاکید فرماتے۔ آپ کا کہنا یہ تھا کہ انسان کو رزقِ حلال کی جدوجہد کر کے غربت و افلاس اور جہالت کے خلاف جہاد کرنا چاہئے۔ کیونکہ غربت بھی جہالت کی طرح انسان کو خدا تعالیٰ سے دور کر دیتی ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے خود بھی کاشتکاری کو ہی ذریعہ معاش بنایا۔ چوہٹہ قاضی اللہ داد اندرون دہلی دروازہلاہور میں اپنے مکان پر درس و تدریس کا سلسلہ ہوتا تھا۔ آپ مثنوی مولانا رومؒ کی شرح بیان کرتے تھے۔ جس میں بہت سے احباب شرکت فرماتے تھے۔ ان میں باشاہی مسجد لاہور کے اس وقت کے خطیب مولانا غلام مرشد صاحبؒ اور قاری محمد اسماعیلؒ صاحب مصنف ”یسرّنا القرآن“ اور دارالعلوم حزب الاحناف کے طالب علم بھی شامل ہوتے تھے۔ حضرت مہر محمد صوبہ صاحب روزانہ بادشاہی مسجد لاہور میں حضرت مولانا غلام مرشدؒ کے درسِ قرآن میں شرکت فرماتے تھے۔ ہر جمعہ کوان کے گھر پر نمازِ عشاءکے بعد محفلِ ذکرو نعت خوانی کا پروگرام ہوتا جو رات گئے تک جاری رہتا۔ آپ روزانہ اپنے پیر خانہ میں حضرت الحاج خواجہ غلام مرتضیٰ صاحب المعروف پیر صاحب قلعہ شریف والے کے ہاں عثمان گنج لاہور جاتے اور بازیابِ فیض و کرم ہوتے۔
آپ حضرت علامہ اقبالؒ ، حضرت پیر جماعت علی شاہ صاحبؒ اور حضرت میاں شیر محمد صاحب شرقپوری کے ہم عصر تھے۔ ان اصحاب کے ساتھ آپ کی ملاقات و رابطہ ہوتا رہا۔
سر محمد شفیع آپ کے رشتہ داراور ایک عظیم مسلم لیگی رہنما تھے جو کہ آپ کے بہت عقیدت مند تھے۔ مولوی نور محمد صاحب چیف میٹریالوجسٹ حکومتِ ہندوستان جب بھی لاہور آتے تو آپ کے ہاں قیام فرماتے۔ حضرت مہر محمد صوبہ صاحب اور علامہ اقبال دونوں ایک دوسرے کے عقیدت مند تھے۔ ایک موقع پر جب بیرسٹر ملک دین محمد مرحوم سر چھوٹو رام کے کہنے پرحضرت علامہ اقبالؒ کے مقابلہ میں الیکشن میںکھڑے ہوئے تو حضرت مہر محمد صوبہ صاحب نے حضرت علامہ اقبال کی کامیابی کے لئے بہت کام کیا اورحضرت علامہ اقبال اس الیکشن میں کامیاب ہوئے۔
الغرض حضرت مہر محمد صوبہ صاحبؒ نہ صرف بلند پایہ روحانی رہنما ہی تھے بلکہ سماجی اور سیاسی طور پر بھی انہوں نے امت مسلمہ کی فلاح بہبود میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ خصوصی طور پر اپنے سے نسبت رکھنے والے ہر شخص کو عشقِ خدا اور عشقِ رسول کی دولت سے مالا مال کیا۔
فروری 1945ءمیں آپ کے وصال کے بعد آپ کے صاحبزادے میاں کرم الٰہی صاحب ؒ آپ کے سجادہ نشین تھےجو کہ لاہور ہائی کورٹ میں ملازمت کرتے تھے۔ ان کے بعد ان کے صاحبزادے میاں نذیر احمد صوبہ صاحب سجادہ نشین ہوئے۔ وہ ویسٹ پاکستان ہائی کورٹ لاہور میں سپرنٹنڈنٹ کریمنل برانچ تھے۔ وہ بھی اپنے والد اور دادا کی طرح پیرِ بے مثال اور خوش خصال تھے۔ ان کاانتقال جنوری 1985ءنیویارک امریکہ میں ہوا۔ وہ وہیں پہ مدفن ہیں۔ میاں نذیر احمد صوبہ صاحب کے خلیفہ جناب محمد جمیل عرفانی صاحبؒ تھے۔ جو کہ خلقِ خدا کی خدمت اپنے بزرگوں کے بتائے ہوئے لائحہ عمل کے مطابق اور شریعت مطہرہ پر عمل کرتے رہے۔ پھر ان کے خلیفہ میاں محمد جہانگیر صاحبؒ المعروف بابا جی نے اس روحانی سلسلہِ فیض کو آگے بڑھایا۔ اس وقت جناب محمد صدیق صاحب اور جناب محمد صابر مرتضائی صاحب خلفاءہیں جو کہ لوگوں میں روحانی فیض بانٹ رہے ہیں۔