دل چھوٹا نہیں کر رہی، میں مانتی ہوں کہ سب سے بڑا مذہب انسانیت ہے۔ جہاں رنگ ونسل کی تفریق مٹ جاتی ہے لیکن دراصل ہمیں یہ بھی سبق دیا جاتا ہے کہ مسائل ومشکلات میں سب سے پہلے اپنے گرد اور اپنے گھر والوں کی طرف دیکھنا چاہئے۔ اب جن لوگوں نے حمایت کی ہے کرتارپور راہداری کی، غلط وہ بھی نہیں ہیں اور جنہوںنے مخالفت کی ہے دراصل وہ بھی اپنے موقف پر درست ہیں۔ نظریات کے پس منظر سے دوطبقات آجکل کرتارپور راہداری کوموضوع بحث بنائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اقلیتوں کا تحفظ بے شک اہم ہے لیکن اس مصروفیت میں اکثریت کے حقوق غصب کرنا یا انہیں زندگی کی ضروریات کیلئے تحفظ نہ دینا بھی تو سراسر زیادتی ہے۔ کرتارپور کو اتنا سیلیبریٹ کیا گیا جتنا بحیثیت قوم ہم اپنی فراخ دلی کا مظاہرہ کرکے کرسکتے تھے، یہ رویہ اچھی چیز ہے، منفیت کی بجائے صحت مند سوچ ہی زندہ قوموں کی پہچان بھی ہوتی ہے، لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ اسی دن یعنی 9نومبر کو اپنے عظیم رہنما کا جنم دن بھی شان وشوکت سے منا لیا جاتا۔ مجھے لگا اس بار9نومبر کو منانے میں ناانصافی سے کام لیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے کرتارپور جاکر اچھی خاصی تقریر کی لیکن اپنے قومی ہیرو کیلئے دو لفظ بھی نہ بولے اور کیا یہ ضروری تھا کہ کرتارپور راہداری کو عین اسی دن کھولاجاتا، دوسری طرف کئی مہینوں سے کشمیری ظلم وستم کا شکار ہیں، ساتھ ہی بابری مسجدکاغیر منصفانہ فیصلہ بھی اسی دوران صادرکردیا گیا، یہ کیسی نوازشات ہیں، تضادات نے نا انصافی اوراور طرف داری کی دو بالکل مختلف روپ دکھائے ہیں، اب چند مہینوں میں جتنا پیسہ کرتاپور راہداری کو سجانے سنوارنے میں لگادیا گیا اتنا پیسہ کراچی کے ٹیکس دینے والی بھاری اکثریت کیلئے شہر سے کوڑا کرکٹ کے خاتمہ کیلئے بھی رکھا جاسکتا تھا، کسان سراپا احتجاج ہیں، ڈاکٹر اور انجینئرز سڑکوں پر بیٹھے رہے، اساتذہ نا خوش ہیں، آخر ہر شعبہ کے لوگ حکومت سے اس قدر نالاں کیوں ہیں، حکومت وقت کو اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، سبزیوں کے ریٹ نے عوام کو آگ بگولہ کر رکھا ہے، اس طرف کوئی اسکیم ریلیف دینے کیلئے نہیں بنائی جارہی، بعض اوقات تو لگتا ہے بے چارے عوام کی کوئی سننے والا بھی نہیں ہے، لیکن صاحب عوام کو بھی بے چارے عوام آخر کیوں کہا جائے کہ یہ حالات یہ حکومت انہی کی انتخاب کردہ ہے، یہ طرز زندگی اور مشکلات خود انہوں نے اپنے ہاتھوں سے خریدی ہوئی ہیں، دوسری طرف وفاقی وزیر کے اس اعلان نے کہ ٹماٹر سترہ روپے کلو ہیں عوام کز مزید آگ بگولہ کررکھا ہے، کیا حکومت عوام کے مسائل سے اس قدر بے خبر ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے، پانچ سالوں میں میٹرو منصوبہ تو مکمل نہ ہو سکا مگر 10ماہ میں راہداری کی تکمیل کرکے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا، آپ کبھی اندرون لاہور سفر کرکے دیکھئے جگہ جگہ بے توجہی کا شکار ٹوٹی سڑکوں سے عوام کا گزرنا مشکل تر ہوچکا ہے، لیکن یہ چھوٹے چھوٹے ٹوٹے بنانے کی طرف بھی کسی کی توجہ نہیں ہے، ایک خبر یہ بھی ہے کہ حکومت نے بنا ٹینڈر جاری کئے ایک نیم سرکاری کمپنی سے کرتارپور منصوبہ مکمل کروایا ہے، بہرحال میرے سمجھدار اور ذہین قاری اس خبر کی اپنے طور پر تصدیق کرسکتے ہیں، یہ سچ ہے تو انصاف کی موت اسی کا نام ہے، آٹھ سو چالیس ایکڑ زمین کو عوام سے سستے داموں خریدا گیا اور دوسری قوم کیلئے وقف کردیا گیا، آپ ذرا اس خبر کی سچائی بھی جاننے کی کوشش ضرور کیجئے گا، خوامخواہ جذباتیت میں سراہنے اور بیان بازیاں کرنے کی بجائے ریسرچ کو بھی اپنا وطیرہ بنائیں، گو کہ لگتی ہے اس میں محنت زیادہ، سچ ہے کہ منہ سے خوامخواہ کے تبصرے کرنا کافی آسان ہے، اب رہ گیا سوال کہ کچھ عرصہ کیلئے ہی سہی بارڈر پارسے آنے والوں کیلئے سفری پاسپورٹ کی شرط کو بھی ختم کردیا گیا ہے، ستم بالائے ستم اسی کو کہتے ہیں، کیا یہ ملکی سالمیت کے حق میں ہے، ہم جو ایک عرصہ سے دہشت گردی کی جنگ لڑتے رہے ہیں اور اس جنگ میں ہزاروں لوگوں کو گنوا چکے ہیں، خود اپنے ہاتھوں سے شرپسند عناصر کو گھسنے کی اجازت تو نہیں دے رہے؟ کیونکہ کرتارپور میں سکھوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی آنے کی اجازت دے دی گئی ہے، کرتارپور سے قادیان کا فاصلہ پچاس کلومیٹر سے کم ہے، کیا دال میں کچھ کالا ہے؟اگر حقوق اقلیتوں کے ہیں تو اس سے کہیں زیادہ اکثریت کے ہوتے ہیں، اکثریت کو جس طرح سے نظر انداز کیا جارہا ہے یہ نا انصافی کیس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ افراتفری اور انتشار بھری خبروں کے سوا میڈیا پر بھی کچھ شبھ شبھ بولتا ہوا نظر نہیںآتا، دھرنے اور انکے مطالبات، دوسری طرف کسی کی بیماری اور اس پر بھی سیاست ہورہی ہے۔ سچ پوچھیں بعض اوقات یہ سارا ماحول مل کر لگتا ہے ہمیں ذہنی مریض بنا رہا ہے، بلکہ شایدبنا چکا ہے، زینب قتل کیس ابھی کسی کو بھولا بھی نہیں کہ پے درپے ایسے بے شمار واقعات ہوئے اور ہوتے چلے جارہے ہیں آج پھر بچوں پر جنسی تشدد کرنیو الا ایک ملزم پکڑا گیا ہے، دیکھیں اس بارے میں کوئی مکمل اور جامع قانون سازی کب کی جاتی ہے، بار بار ایسے واقعات کا پیش آنا اس بات کی علامت ہے کہ حالات ہر حوالے سے حکومت کے بس سے باہر ہوچکے ہیں، کیسے کیسے درندہ صفت لوگ ہمارے معصوم بچوں پر بھیڑئیے کی نگاہ رکھے ہوئے ہیں، سچ کہا ہے کسی نے کہ آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا۔
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
Nov 16, 2019