آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا 

Nov 16, 2020

ظفر علی راجا

وزیراطلاعات و نشریات شبلی فراز نے حزب مخالف کو بنارسی ٹھگوں کا ٹولہ قرار دیدیا ہے اور یہ اعلان بھی کیا ہے کہ ان بنارسی ٹھگوں کو ایک سٹیج پر دیکھ کر بنارسی ٹھگوں کی یاد آجاتی ہے۔ ملک بھر میں ان بنارسی ٹھگوں کی چالیس سال تک حکمرانی رہی ہے۔ یہ سب سیاستدان لینڈ کروزر اور ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر غریب عوام کی باتیں کرتے ہیں۔ مریم نواز بھی سیاسی وراثت کی پیداوار ہیں اور انہوں نے اپنے آپ کو بینظیر بھٹو سمجھ لیا ہے۔ بینظیر پڑھی لکھی خاتون تھیں اور اس کی ذہنی مہارت سب سے بڑھ کر تھی۔ مریم نواز کی طرح صرف جوتے‘ کپڑے اور میک اپ تو نہیں تھا۔ اگر مریم نواز عوام کی بات کرتی ہیں تو پھر آپ کو ان ہی طرح رہنا ہوگا۔ بلاول بھٹو‘ نوازشریف اور شہبازشریف کی اولاد نے ہماری خواتین پر ایسی باتیں کی ہیں جو شرمناک ہیں۔ جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ لیکن ان کو بھی گھسیٹا گیا ہے۔ انہیں پتہ نہیں کہ کس آگ سے کھیل رہے ہیں۔ اداروں کو لڑانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ اقدامات شرمناک ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے ہمیشہ ووٹ کی تذلیل کی ہے۔اس دوران دو  قوتیں ملک میں باہم برسرپیکار ہیں۔ ایک مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں حزب مخالف کی سیاسی جماعتیں ہیں جو اپنی کالی زرکاری کو بچانے میں مصروف ہیں۔  جبکہ دوسری عمران خان کی قیادت میں خیر کی قوت ہے۔  بلاول بھٹو زرداری یہ سمجھتے ہیںکہ صوبہ سندھ ان کی جائیداد ہے۔شبلی فراز نے اعلان کیا ہے کہ حزب اختلاف کو رہنمائوں جب سٹیج پر بیٹھے ہوتے ہیں تو یہ دیکھ کر یاد آ جاتی ہے کہ بنارسی ٹھگ کون ہوتے ہیں۔ بنارسی ٹھگ چھا لباس پہن کر آتے تھے اور لوگوں کو دھوکہ دے کر فرار ہو جاتے تھے۔ یہ سیاسی رہنما اپنی تقاریر میں جلسے میں حاضر عوام کو بتا رہے ہیں کہ وہ اگر اقتدار میں آ گئے تو وہ ساری معیشت کو ٹھیک کر دیں گے لیکن عوام کو معلوم نہیںکہ پچھلے چالیس سال سے ان ہی کی حکومتیں ہیں۔ عوام کو سہولت دینے کے بجائے موٹر سائیکل پر آنے والے کس طرح لینڈ کروزر سے اتر کر جلسوں میں غریبوں کی بات کرتے ہیں اور عوام کو بھاشن دیتے ہیں کہ انہیں  غریب عوام کا دکھ ہے۔ ان کی تقاریر سے پوری دنیا میں پاکستان کا مذاق اڑایا  جا رہا ہے اور خاص کر بھارتی حکومت جو کہ ان کی تقاریر بھارتی ٹی وی پر دکھا رہی ہے۔ یہ بہروپئے ہیں جنہوں نے پاکستان ، اداروں اور معیشت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔ آج عوام کے ہمدرد بن کر نمودار ہوئے ہیں جس کی وجہ سے سیاسی ناٹک جو یہ کھیل رہے ہیں حزب مخالف بنارسی ٹھگوں کا ٹولہ ہے۔ سب کے سب جیل جائیں گے۔ اس ناٹک کے پردہ میں ا ن کے مکروہ اور بدعنوان چہرے چُھپ جائیں اور اپنے بدعنوانی کے کردار پاکستانی عوام کے سامنے نہ کھلیں۔ بلاول بھٹو تقریریں کر رہے ہیں کہ عوام ان کا ساتھ دیں۔ عوام نے آپ کے والداور والدہ کا ساتھ بھی دیا تھا۔ ان کی حکومتوں کے دوران عوام کو کیا سہولیات میسر آئیں۔ کیا اس دوران غربت کا خاتمہ ہوا۔ کیا عوام کو نوکریاں ملیں۔ بلاول بھٹو کی حیثیت کیا ہے۔ وراثت کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی قیادت نصیب ہوئی۔ بلاول بھٹو اپنے قدسے بڑی باتیں کرتے ہیں۔ پاکستانی عوام کو دکھانے کے لئے بلاول بھٹو کے پاس کیا ہے۔ کراچی اور سندھ میں بہت سالوں سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے لیکن وہاں کے حالات کیسے ہیں۔ وہاں سندھی عوام بھوک افلاس اور غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اپوزیشن نے ہر ادارے اور پولیس  کو بھی سیاست میںملوث کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون خودکو جمہوریت کا دوست کہتے ہیں۔ کیا جمہوریت یہ ہوتی ہے کہ آپ لوگوں کو جھانسہ دے کر اقتدار میں آئیں اور پھر لُوٹ مار شروع کر دیں۔ اگر آج ادارے نیچے ہیں تو ان کی ذمہ دار پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ہے۔ یہ کوئی دو سال کی بات نہیں ۔ یہ تیس اور چالیس سال کی نااہل اور بدعنوان قیادت کا شاخسانہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ انہیں جب حکومت میں آنے کا موقع ملتا ہے تو یہ دونوں عوام کا خون چُوستے ہیں لیکن آج عوام کے ہمدرد بن کر بیٹھے ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں کی سیاست بنیادی طور پر ذاتی مفادات کا مجموعہ ہے۔ یہ اپنے کرپشن کے مقدمات سے نجات پانا چاہتے ہیں لیکن اگر پاکستان کو آگے لے جانا ہے اور ان سب کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانا ہو گا۔ عمران خان کے وزیراعظم ہوتے ہوئے وہ دن دور نہیں جب یہ سارے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے اور جیلوں میں ہوں گے۔

آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ۔

مزیدخبریں