ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی 

Nov 16, 2020

اسلم لودھی

ممتاز صحافی ،دور حاضرکے سرسید اور ماہنامہ اردو ڈائجسٹ کے بانی و منیجنگ ایڈیٹر ڈاکٹراعجاز حسن قریشی 2نومبر 2020ء کو 92سال کی عمر پاکر اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔(بیشک ہم سب اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی جانب لوٹ کر جانے والے ہیں ۔)ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی ہندوستان کے ضلع کرنال کے ایک گاؤں ہابڑی میں 1928ء کو پیدا ہوئے ۔انہوں نے ابتدائی تعلیم  بھانہ گاؤں تحصیل کیتھل ضلع کرنال سے حاصل کی ۔1944ء میں گورنمنٹ ہائی سکول سرسہ سے میٹرک کا امتحان اول پوزیشن میں پاس کرکے مزید حصول تعلیم کے لیے علی گڑھ یونیورسٹی جاپہنچے ۔1946ء میں علی گڑ ھ یونیورسٹی سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا ۔ پھر جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو آپ اپنے خاندان کے ہمراہ پہلے ہارون آباد پھر لاہور تشریف لے آئے ۔1947ء میں آپ نے محکمہ انہار بطور کلرک ملازمت کا آغاز کیا ۔بعد ازاں ملک نصراللہ خان عزیز کی ادارت میں شائع ہونے والے اخبار "تسنیم " سے وابستہ ہوگئے ۔1955ء میں جرمن سفارت خانے کی جانب سے اسکالر شپ ملا ۔تو آپ پی ایچ ڈی (ڈاکٹریٹ) کی ڈگری حاصل کرنے جرمنی جا پہنچے ۔جرمنی سے واپسی پر آپ نے پنجاب یونیورسٹی میں بطور پروفیسر دو سال تک اپنی خدمات انجام دیں ۔1960ء میں اردوڈائجسٹ کی اشاعت کا اہتمام کیا ۔الطاف حسن قریشی کے حالات حاضرہ اور سیاسی مدو جزر پر مشتمل تاریخ ساز تجزیئے شامل ہوتے ۔1960ء سے لے کر آج تک یہ بے باک تجزیئے صحیح معنوں میں پاکستان حقیقی تاریخ کے عکاس ہیں ۔حصول تعلیم کے دوران ڈاکٹر اعجاز قریشی کو مختلف ممالک میں جانے کا اتفاق ہوا۔انہوں نے محسوس کیا کہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے پاکستانی اپنے وطن کی سبزیاں اور پھل کھانے کے آرزو مند ہیں ۔ چنانچہ سبزیوں اور پھلوں کی بہترین پیکنگ میں برآمد کرنے کا آغاز ہوا  ۔یہ کاروبار روشن انٹرپرائزر کے نام سے شروع ہوا تھا۔2002ء کی ایک صبح ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کی نظر ا خبار میں شائع ہونے والی ایک خبر پر رک گئی کہ میٹرک کے امتحانات میں 850نمبروں میں سے 810نمبر لے کر ریکارڈ قائم کرنے والی طالبہ سعدیہ مغل کولاہور کے ایک تعلیمی ادارے میں داخلے کے سلسلے میں مالی مشکلات کا سامنا ہے ۔اس خبر نے انہیں رنجیدہ کردیا وہ سوچنے لگے کہ پچاس سال پہلے وہ خود انہیں بھی حصول تعلیم کے لیے ایسی ہی مالی مشکلات کا سامنا کرناپڑا تھا ،جب ان کی جیب میں صرف ایک سو روپے تھے ۔پھر علی گڑھ یونیورسٹی کی انتظامیہ کے تعاون سے آپ نہ صرف وہاں سے انٹر کا امتحان پاس کرنے میں کامیاب ہوئے بلکہ گزراوقات کے علاوہ ہوسٹل کے اخراجات بھی ان سے نہ لیے گئے ۔انہوں نے اپنے بھائی الطاف حسن قریشی سے مشورہ کرنے کے بعد کاروان علم فاؤنڈیشن کی بنیاد صرف دس ہزار روپے سے رکھی ۔آپ کے بقول آپ سمیت تمام بہن بھائیوں کی کردار سازی میں ان کی عظیم والدہ کا بڑا ہاتھ ہے جنہوں نے اپنی اولا د کی سیرت کو ایسے مضبوط سانچے میں ڈھالا کہ جوانی سے بڑھاپے تک ان کے پاؤں میں کہیں لغزش نہ آئی ۔کردار سازی کا اب یہی عنصر ڈاکٹر اعجاز قریشی کے بیٹوں بطور خاص طیب اعجاز قریشی میں دیکھنے کو ملتا ہے جو اپنے والد کے لگائے ہوئے پودے "اردو ڈائجسٹ"کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں ۔اس حوالے سے انہیں قدم قدم پر الطاف حسن قریشی کی سرپرستی اورصحافتی تعاون حاصل ہے۔ڈاکٹر اعجاز قریشی کا شمار جمعیت طلبہ کے بانیوں میں ہوتا ہے ۔جب اور جہاں بھی اردو ڈائجسٹ کا ذکر آئے گا وہاں ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اور چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے الطاف حسن قریشی کے نام سنہری لفظوں میں ذہنوں کی سکرین پر ابھرتے دکھائی دیں گے ۔بظاہر تو ڈاکٹر اعجاز قریشی کی صورت میں ایک شخص دنیا سے رخصت ہوا ہے لیکن ان کے پسماندگان میں بیٹوں کے علاوہ وہ تمام لوگ بھی شامل ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں مرحوم کی ذات اور ادارے سے وابستہ رہ چکے ہیں۔راقم کا شمار بھی انہی لوگوں میں شامل ہے ۔اللہ انہیں غریق رحمت فرمائے ۔آمین

مزیدخبریں