مہنگائی کا عروج اور ’تھاپیاں‘

قوم کو یاد رکھنا چائیے کہ پرواز کرکٹ گراونڈ سے ہو یا کسی شاہی محل سے، زمین سے ہوئی پرواز کا اختتام بھی زمین پر ہی ہوتا ہے۔ ابھی تو وسط نومبر ہے ، ہمیں تیار رہنا چائیے۔ دسمبر کے جاڑے کی یخ بستہ ٹھنڈی ہوائوں سے ٹھنڈا ٹھار ہونے کے لیے ! کیونکہ کْلبلاتی مہنگائی کی تپش سے قوم کی توجہ ہٹانے کے لیے قوم کو صبح ، دوپہر ، شام کے لیے ’سوئی گیس ‘کی تین خوراکیں قبل از ٹھنڈ فراہم کر دی گئی ہیں ؛ اِن تین خوراکوں کی فراہمی کے ساتھ اگر لکڑی کا پرہیز بھی بتا دیا جاتاجو گیس سے اْتنی ہی مہنگی ہے ، جتنی عوام کی قوت خرید سے۔ دالیں ، گھی اور چینی !!!  تو یقینًا بہترین یادداشت والی یہ قوم جو 29 سال پرانا ورلڈ کپ نہیں بھولی‘ اْسے تیس سال پراین بھینس کے گوبر کی ’’ تھاپیاں‘‘ بھی یاد ہوں گی ؛ جو آج بھی یہ خاصیت رکھتی ہیں کہ بھلے بھینس کا دودھ خالص ہو یا نہ ہو ، ’’ تھاپی ‘‘ آپ کو سو فیصد خالص ملے گی ، جو پہاڑوں پر چڑھی اِس مہنگائی کے دور میں آج بھی سستی ہے اور سرمایہ دار کی ذخیرہ اندوزی سے محفوظ بھی۔ سیانے کہتے ہیں کہ جب سردیاں آتی ہیں تو سردی لگتی ہے۔ اور جب زیادہ سردیاں آتی ہیں تو زیادہ سردی لگتی ہے۔ تو اْن لمحات میں خصوصاً لاہوریوں کے لیے جن کا ڈینگی کے وار سے محفوظ رہنا ناممکن ہو چکا ہے، گوبر کی یہ ’’ تھاپیاں ‘‘ ڈبل ’’ اکسیر ‘‘ ثابت ہوں گی ، جو جلتی کم اور ’’دْھکتی ‘‘ زیادہ ہیں !!! پھر اِس کے دھوئیں سے بھلے آپ محفوظ رہیں یا نہ رہیں لیکن ڈینگی سے محفوظ رہنے کی مکمل گارنٹی ہے۔ پھر اپنی تازہ ترین جانوں کے ضیاع اور بے وقتی پر پھڑپھڑاتی لاہور پولیس بھی بڑی آسانی سے اپنا یہ جواز پیش کر سکے گی کہ ’’ تھاپیوں ‘‘ کے سیاہ ترین دھوئیں میں اْنہیں پانچ دسمبر کا پولنگ کہیں دِکھائی ہی نہیں دیا۔  
پہلے تو مہنگائی صرف بھوک سے مارتی تھی۔ اب ساتھ تشدد بھی کرتی ہے، جسے چْھپانے کے لیے تبدیلی ، استعفے اور نوٹی فیکشن کی ہنڈیا چڑھائی گئی ، لیکن تاڑنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں جو کھانے سے پہلے ہی بھانپ گئے کہ اِس میں ’’ نمک ‘‘ تو ڈالا ہی نہیں گیا ؛ یہ کیسے ممکن ہے کہ اْنہیں بتائے بغیر ’’ نمک ‘‘ کی مقدار گھٹا دی جائے۔
اگرچہ کسی کو یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ آخر حکومتی اراکین نے الیکٹرونک ووٹنگ سسٹم کے بل پر تابعداری کیوں نہیں کی لیکن حکومتی اراکین کو یہ سمجھ ضرور آ چکی ہے کہ یہ بل پاس کرانا پائوں پر کلہاڑی مارنا نہیں بلکہ کلہاڑی پر پائوں مارنا ہے۔ آخر اْنہوں نے بھی تو الیکشن لڑنا ہی ہے تو وہ 19 نومبر سے پہلے آنے والی کالز کی بجائے 19 نومبر کے بعد کے حکم نامے کی تعمیل کیوں نہ کریں ؛ سارا سسٹم تو ’’ ہاں‘‘ اور ’’ ناں ‘‘ میں ہی ہے ، اگر آپ کسی کو ناں بولیں یا’’ ایب سلیوٹلی ناٹ‘‘ کہلوا دیں تو جواب بھی پھر ’’ ناں ‘‘ ہی آئے گا۔ اور ہاں کے سگنل کی فریکوئنسی تبدیل ہو جائے گی۔ اگر سیاسی بساط پر ساری توجہ عوام کی مہنگائی سے توجہ ہٹانے پر مرکوز کر دی جائے گی تو مخالف مہرے شہہ مات دیں گے ہی۔ جس کے بعد پْرانے کھلاڑیوں کی نئی بساط بِچھے گی جس کا اشارہ ڈسکہ الیکشن کمیشن کی رپورٹ پر سامنے آ چکا ہے۔ 
خبریں تو یہ بھی ہیں کہ میاں نواز شریف اب میاں شہباز شریف پر متفق ہو چکے ہیں، اْن کے خدشات پر کچھ طاقتور غیر مْلکی ’’گارنٹر ‘‘ ہیں اگر پاکستانی سیاست کی بساط پر میاں نواز شریف اور مریم نواز کے نااہل ہونے کے باعث آئندہ الیکشن میں میاں شہباز شریف مسلم لیگ ن کی طرف سے وزیراعظم کے اْمیدوار ہوتے ہیں تو پنجاب کا سہرا حمزہ شہباز کے سر پر ہو گا اور وزارت خارجہ کا قرعہ فال چیک اینڈ بیلنس اور ٹریننگ کے طور پر محترمہ مریم نواز صاحبہ کے نام نکل سکتا ہے۔ لیکن ان سب قیاس آرائیوں کی تکمیل ابھی بہت دور دِکھائی دیتی ہے ، کیونکہ سیاست کی بساط پر نظر آنے والی چالیں ہمیشہ نظر سے اوجھل ہونے والی چالوں سے ہی مات کھاتی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...