غمزدوں کیلئے رحمتِ مصطفی ﷺ

فرمان خدا وندی ہے جب اپنی جانوں پر ظلم کر لو تو میرے حبیبﷺ کی بارگاہ میں چلے جائو میں تمھیں معاف کر دونگا۔ انسان سمجھدار بڑی بڑی باتیں کرنے سے نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی باتیں سمجھنے سے ہوتا ہے اور پھر اسکی اصل تصویر آئینہ نہیں اسکی گفتگو دکھاتی ہے۔ یہ بالکل حقیقت ہے کہ تنقید سے پہلے تحقیق ، الزام سے پہلے ثبوت اور اختلاف سے پہلے دلیل رکھنا ہی اعلیٰ ظرفی کی ضمانت ہے ۔ میں نے زندگی کے تجربات سے سیکھا ہے کہ اکثر لوگ کہتے ہیں ذرا سی بات پہ تعلق ٹوٹ گیا دراصل اس ذرا سی بات کے پیچھے بڑی باتیں ہوتی ہیں۔ وہ ذرا سی بات دراصل برداشت کی آخری حد ہوتی ہے ۔ اللہ کبھی کسی پہ ظلم نہیں کرتا بلکہ ہم خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ تاریخ اُٹھا کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ کبھی انسان کے مشیر، کبھی غرور تکبر اور ذاتی انا نے ایسے طوفان برپا کیے کہ بعد میں سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آیا حالانکہ کسی بھی بڑی سے بڑی جنگ کا اختتام بالآخر مذاکرات پر ہوتاہے۔
بحیثیت وزیر میں سسٹم کا حصہ رہا ہوں اور عملی طور پر بہت سی چیزوں کو قریب سے دیکھا ہے۔ چھوٹے بڑے جلوس بڑے بڑے احتجاج دھرنے بھوک ہڑتالیں دیکھی ہیں ۔ پہلے چشم پوشی اور پھر داخلی و خارجی سطح پر بدنامی کے بعد مذاکرات کرکے کبھی مطالبات تسلیم کر کے اور کبھی لولی پاپ دے کر حکومتوں کو جان چھڑاتے دیکھا ہے اور یہ کسی ایک حکومت میں نہیں ہوتاسابقہ ادوار سے لے کر موجودہ حکومت تک یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ہر حکومت آخر میں"سو پیاز اور سو جوتے بھی کھاتی ہے"۔ پاکستان میں بہت سے دوسرے سیاسی سماجی نعروں کو لے کر مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتیں عوام کی طاقت کے ساتھ سڑکوں پر آئی ہیں کسی نے روٹی کپڑا اور مکان ، کسی نے پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر اور کسی نے پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرنے کے سہانے خواب دکھائے۔ اس صدی کا سورج ہی کچھ ایسے طلوع ہوا ہے کہ دنیا بالکل بدل گئی ہے۔ ظلم ، جبر ، ناانصافی سر چڑھ کر بول رہی ہے ۔ انسانیت ، فرعونیت اور حیوانیت کے آگے بالکل بے بس ہے۔ دنیا میں دوست بنا کر دشمنوں سے زیادہ برباد کیا جا رہا ہے۔ وضع داری، رواداری، پیار محبت ختم ہونے کے ساتھ خون سفید ہو گئے ہیں۔ ہر طرف ایک عجیب و غریب کیفیت کا عالم ہے ۔ سانپوں کو سپیروں نے یہ کہہ کر بند کر لیاہے کہ انسان ہی انسان کو ڈسنے کیلئے کافی ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ویرانوں میں رہنے والے سانپوں سے آبادی میں بسنے والے سانپ زیادہ زہریلے ہیں:
سوچاں دی اے میت چا کے ہُن میں کیہڑے گھر جاواں گا
جے بولاں تے مار دین گے نہ بولاں تے مر جاواں گا
ایسے وقت میں جب پاکستان میں لوٹ مار کا بازار گرم نظر آتا ہے۔ غریب غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے امیر امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ کچھ مخصوص لوگ تجوریاں بھر رہے ہیں کچھ باہر دیار غیر میں موجیں کر رہے ہیں کچھ وزرائے کرام دنیا کی مہنگائی کا تذکرہ کر کے صبر کی تلقین کرتے نظر آ رہے ہیں۔ مگر ان عقل کے اندھوں کو شاید یہ علم نہیں ہے کہ باہر کے لوگوں کے پاس "بائینگ پاور " ہے یہاں تو ہیلتھ اور ایجوکیشن منافع بخش کاروبار ہیں اور سب سے زیادہ منافع پرائیویٹ ایجوکیشنلز اداروں کے مالکان کما رہے ہیں اگر انہیں ایجو کیشن سیلر کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ ایسے موقع پر جب لوگ روٹی کو ترس رہے ہوں مہنگائی کے جن نے پنجے گاڑ دیے ہوں لوگ عجیب کشمکش میں مبتلاہوں ملک میں ایک بہت بڑی سازش کے تحت خانہ جنگی کی طرف لے جانے کی فضا بنا دی جاتی ہے۔ 
تحریک لبیک کے ساتھ اگر شروع میں مذاکرات کر لیے جاتے تو یہ چنگاری عقل فہم و فراست، پیار محبت اپنائیت اور سب سے زیادہ ریاست مدینہ میں عشق مصطفی ﷺ سے بجھائی جا سکتی تھی۔ مگر یہ ایک بہت بڑی سازش تھی جس میں شاید اندرونی اور بیرونی ہاتھ زیادہ ملوث تھے اور لگتا تھا ہمارے کچھ اپنے بھی آلہء کار تھے۔ لبیک یا رسول اللہ ﷺ کن کے سینے میں زہریلے خنجر کی طرح پیوست ہوتا ہے یہ سب کو معلوم ہے اور شاید موجودہ حکومت کو ان سے باخبر رہنا پڑیگا۔ 
پاکستان میں خانہ جنگی کروانے کی اس بہت بڑی ساز ش کو صرف اور صرف پاکستان کے معتبر اداروں اور کچھ غیر سیاسی شخصیات نے انتہائی دانشمندی کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے روکا ہے۔ پاکستان رینجرز اور پنجاب پولیس "لبیک یا رسول اللہ ﷺ" کا نعرہ لگانے والوں کو آمنے سامنے کھڑا کرنا پاکستان میں آگ لگانے کے مترادف تھا ۔ جن جن وزراء کا اس میں نیگیٹو رول تھا کم از کم انھیں فوری طور پر وزارتوں سے فارغ کرنا چاہیے اور پاکستان کے اداروں کو کمزور کرنے کی سازش کرنے والوں کا بھی محاسبہ ہونا چاہیے۔ پاکستان اور پاکستان کے اداروں کو مذاق نہ بنائیں۔یاد رکھو قومیں غلطیاں کرنے سے نہیں غلطیوں پر اصرار کرنے سے برباد ہوتی ہیں۔ بہت کچھ کہہ چکا میں بلا تفریق سب کو کہنا چاہتا ہوں کہ اسلام سے قربت میں بھلائی ہے۔ اسلام سے دوری میں بربادی ہے۔ مجھے آخر میں کہنے دیں کہ محمد مصطفی ﷺ کو راضی کر لی ’’چنگے رہ جائو گے‘‘۔

ای پیپر دی نیشن