قارئین کرام، پولیس ریاست کا چہرہ ہوتی ہے جس کا بنیادی فریضہ جرائم کو کنٹرول کرنا، امن و امان کا قیام اور عوام کے جان و مال کا تحفظ ہے۔ پاکستان میں پولیس کا نظام کلونیل ہے، جسے 1861ء کے پولیس ایکٹ کے تحت غلام متحدہ ہندوستان میں نافذ کیا گیا۔ جس کو برطانوی پارلیمنٹ نے 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد منظور کیا، جس کا مقصد ہندوستانی عوام کو غلام اور محکوم رکھنا تھا، قیام پاکستان کے 73 سال گزرنے کے باوجود آج بھی پولیس کے تھنک ٹینک اس بات پر پوری طرح متفق ہیں کہ پولیس اپنے بنیادی فرائض اس وقت تک ایمانداری سے ادا نہیں کر سکتی جب تک اسے عوام کا مکمل اعتماد حاصل نہ ہو۔خیر چھوڑیں ، خبر یہ ہے کہ پنجاب پولیس کے افسران ایک بار پھر تبادلوں کی زد میں ہیں ، اب کی بار تبادلوں کا یہ ریلامذہبی تنظیم کے مارچ کو روکنے میں ناکامی کی پاداش میں آیا اور اب تک اس معاملے میں سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر اور ڈی آئی جی آپریشن سہیل چوہدری سمیت مختلف اضلاع کے 45 پولیس افسران کو انکے عہدوں سے ادھر ادھر کردیا گیا جبکہ ابھی ڈویژنل ایس پیز اور ایس ڈی پی اوز کے عہدوں پر تعینات مزیدافسران کے تبادلوں کا بھی امکان ہے، یہ تبادلے لاہور،گوجرانوالہ،شیخوپورہ اور قصور پولیس میں تعینات ایس پیز اور ایس ڈی پی اوز کے کئے جائینگے جس کیلئے فہرستیں بھی بنالی گئیں ہیں، ٹرانسفر پوسٹنگ کے اس کھیل میں موجودہ حکومت اب تک6 آئی جی۔5 سی سی پی اوز لاہور اور 8 ڈی آئی جی آپریشنز اور 3 ڈی آئی جی انویسٹی گیشن تبدیل کرچکی ہے جبکہ دیگر اضلاع کے آرپی اوز۔ڈی پی اوز۔سی پی اوز سمیت دیگر انتظامی امور کے افسران کے تبادلوں کی ایک طویل فہرست الگ سے ہے۔ پولیس کے حلقے ان تبادلوں اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر عجیب گو مگو کا شکار ہیں۔سانحہ گریٹر اقبال پارک کے بعد انکوائری مکمل ہوئے بغیر ہی ڈی آئی جی ساجد کیانی۔ ایس ایس پی ندیم عباس۔ایس پی حسن جہانگیر سمیت دیگر افسران کو انکے عہدوں سے ہٹا دیا گیا تھا تاہم بعد میں ثابت ہوا کہ یہ واقعہ ہوا نہیں تھا بلکہ اس کو ایک پلاننگ کے ساتھ رچایا گیا تھا۔ خیر چھوڑیں: سانحہ گریٹر اقبال پارک ہو یا سانحہ پی آئی سی۔مذہبی تنظیم کا مارچ ہو یا پھر اپوزیشن جماعتوں کی ریلیاں۔ بہر حال تبادلے تو پولیس کے افسران کے ہی ہونگے کیونکہ ماضی میں بھی سبھی حکومتوں کا یہی وطیرہ رہا ہے۔ویسے بھی جس کو دیکھو وہ پولیس کو’’فتح‘‘کرنا چاہتا ہے۔اب کچھ بات کرتے ہے حافظ آباد پولیس کے سی آئی اے انچارج خالد نواز وریا کی جانب سے آئی جی پنجاب کو لکھے ایک خط کی۔جس نے پولیس افسران کی بزدلی ، ناقص حکمت عملی اور ٹریننگ کے معیار پر بھی کئی سوالیہ نشان اٹھا دئیے ہیں ،خط کے متن کیمطابق مذہبی تنظیم کے مارچ کے دوران سادھوکی پوائینٹ پر شیل کم ہونے سے فورس کا بڑا حصہ بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرار ہو گیا تھا ، اسی دوران شر پسندوں کو شیخوپورہ کی حدود میں دھکیل دیا تھا لیکن موقع پر موجود افسران بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھاگ گئے تھے ،جب فورس ہجوم کو پیچھے دھکیل چکی تھی تو بیک اپ میں افسران اور جوانوں نے بزدلی کا مظاہرہ کیوں کیا؟ خط میں لکھا گیا ہے کہ افسران کی بزدلی کی وجہ سے پنجاب پولیس کی انتہائی تذلیل ہوئی ہے، اس کا ذمہ دار کون ہے؟بزدلی کا مطاہرہ کرنے والے افسران اور جوانوں کا تعین کیا جائے کیا پر تشدد ہجوم سے نمٹنے کیلئے بنایا گیا سکیورٹی پلان جدید تقاضوں سے ہم آہنگ تھا یا پھر سکیورٹی برانچز میں کاپی پیسٹ کی طرز پر چھاپا گیا تھا، سکیورٹی پلان قابل عمل تھا۔ فرنٹ لائن فورس کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے ذمہ دارانکے خلاف فوجداری کارروائی کی جائے۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ کو شاہی اور انفرادی احکامات کے بجائے جامع حکمت عملی کے تحت چلایا جائے۔خالد نواز کے مطابق دوران ڈیوٹی جو دیکھا وہی لکھا محکمہ کی پالیسیوں پر دوبارہ نظر ثانی کی جائے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر پولیس کے محکمہ کو ہر قسم کی سیاسی مداخلت سے پاک کردیا جائے، ناکامیوں کے اسباب کو مدنظر رکھتے ہوئے حکمت عملی طے کی جائے اور وسائل کو صحیح سمت پر استعمال کرتے ہوئے اس کو جدید اسلحہ و سہولیات سے آراستہ کیا جائے تو یقینامعاشرے میں مستقل بنیادوں پرامن و امان کا قیام ممکن ہے۔
قارئین کرام، اس وقت مختلف کیبل چینلز پر بدمعاشوں اور غنڈہ عناصر کے ناموں اور کرداروں پر بننے والی فلمیں نشر کی جارہی ہیں جن میں پنجاب کے نام نہاد کلچر کی آڑ لیکر بدمعاش نما ہیروکو معاشرے کا، ’’رہبر‘‘ جبکہ محکمہ پولیس کو ’’ویلن‘‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔معاشرے میں بگاڑ کا سبب بننے والی ان فلموں کے مناظر میں پولیس کی انتہائی برے طریقے سے تذلیل کرتے دکھا ئی دیتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید پولیس کا تعلق کسی دشمن ملک سے ہے اور اس کی تذلیل کرنا فلم ڈائریکٹر کیلئے فرض ہے۔