خالد بہزاد ہاشمی
khalidbehzad11@gmail.com
کردار کی تعمیر میں والدین خاص طور پر ماں کا کردار اور تربیت خصوصی اہمیت کی حامل ہوا کرتی ہے۔ پیغمبروں، نبیوں ، اہلبیت ، صحابہ کرامؓ، اولیاء کرامؒ اور سرکردہ تاریخی و علمی شخصیات سب کو عزت و تکریم شہرت و مرتبہ اپنی قابل فخر مائوں کی اعلیٰ تربیت اور ان کے قدموں کے طفیل حاصل ہوا۔ حضرت غوث پاک کے والد ماجد حضرت سید ابو صالح موسیٰ جنگی آپ کے بچپن میں ہی وصال فرما گئے تھے اور آپ کے نانا جان حضرت سید عبداللہ صومعی نے یتیم نواسے کو اپنے سایہ عافیت میں لے کر اس کی پرورش کا فریضہ انجام دینا شروع کیا۔ آپ کی والدہ محترمہ سیدہ اُم الخیر اُمتہ الجبار کی خواہش تھی کہ آپ کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کریں۔ چنانچہ آپ کو جبلان کے مکتب میں داخل کرا دیا گیا جہاں آپ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے لگے لیکن مشیت ایزدی کو ابھی اس قابل فخر ماں اور یتیم بچے کا بڑا امتحان مقصود تھا اسی اثنا میں حضرت غوث پاک کے یہ مشفق و مہرباں نانا جان بھی اللہ کی رحمت میں چلے گئے اور یوں شفقت پدری کے بعد پیارے نانا جان کی برگد جیسی گھنی چھائوں سے بھی محروم ہو گئے لیکن آپ کی والدہ محترمہ نے حوصلہ نہیں ہارا اور اپنی تمام تر ترجہ حضرت غوث پاک کی اعلیٰ تعلیم پر مرکوز رکھی۔ یہ والدہ محترمہ کی تربیت کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ کے دل میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا شوق جاگزیں ہوا، یہ اعلیٰ تعلیم جیلان جیسے قصبہ میں اب ممکن نہیں تھی۔ بغداد ان دنوں علم و ادب کا سب سے بڑا مرکز تھا اور وہاں جانے کے لیے سفر کی مشکلات تعلیم کا حصول اور اخراجات یہ سب مراحل درپیش تھے۔
حضرت غوث پاک نے والدہ محترمہ سے بغداد جانے کی خواہش کا اظہار کیا ، اس وقت آپ کی عمر سترہ سال تھی ، جیلان سے بغداد کا سفر محفوظ نہ تھا ، ان دنوں قافلوں کو ڈاکو رستے میں لوٹ لیا کرتے تھے ، یہ رستے میں صحرائوں ، رہگزاروں ، نخلستانوں میں گھات لگا کر بیٹھ جاتے تھے اور بے خبری میں قافلوں پر ٹوٹ پڑتے تھے۔
جب آپ والدہ محترمہ سے اجازت لیکر بغداد رخصت ہونے لگے تو انہوں نے آپ سے فرمایا کہ آپ کے والد محترم نے ترکہ میں 80 دینار چھوڑے تھے جن میں نصف یعنی چالیس دینار میں نے آپ کے بھائی کے لیے رکھ چھوڑے ہیں جبکہ چالیس دینار میں نے تمہاری قمیض کے اندر سوئی سے سی دئیے ہیں تاکہ گرنے یا رستہ میں نقصان کا اندیشہ نہ رہے۔ نوعمر اور یتیم سیدنا عبدالقادر جیلانی والدہ محترمہ اور بھائی سے جدائی پر بڑے دل گرفتہ اور اداس تھے ، والدہ محترمہ کے دل و جگر پر ان کی جدائی شاق گزر رہی تھی لیکن انہوں نے بہت حوصلے سے اپنے یتیم لخت جگر کو بغداد روانہ کرتے ہوئے فرمایا کہ عبدالقادر تمہیں اللہ کے سپرد کیا اور نصیحت فرمائی کہ کبھی جھوٹ نہ بولنا۔
سیدنا حضرت عبدالقادر بغداد جانے کے لیے قافلے کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ جیلان سے فاصلے پر راستے میں ساٹھ ڈاکوئوں نے قافلے پر حملہ کر دیا اور تمام لوگوں سے مال و اسباب لوٹ لیا ، ایک ڈاکو نوعمر عبدالقادر کے پاس آتا ہے اور دریافت کرتا ہے کہ اے لڑکے بتا تیرے پاس کیا کچھ ہے؟
نوعمر عبدالقادر ڈاکو کی بات سنتے ہیں اور بغیر خوفزدہ ہوئے کہتے ہیں کہ میرے پاس چالیس دینار ہیں ، ان دنوں چالیس دینار بڑی رقم تھی ڈاکو نے اسے مذاق سمجھا اور ہنستے ہوئے آگے بڑھ گیا بعدازاں اس کا دوسرا ساتھی آپ کے پاس آتا ہے اور یہی سوال کرتا ہے جسے نوعمر عبدالقادر وہی جواب دیتے ہیں جسے سُن کر وہ بھی اس کا مذاق اڑاتا ہوا چل دیا اس کے بعد دونوں ڈاکو سردار کے پاس جاتے ہیں اور قافلے میں موجود نوعمر لڑکے کی چالیس دینار کی بات بتاتے ہیں جسے سن کر وہ چونکتا ہے کہ اس لڑکے کو جلد میرے پاس لائو ، ڈاکو آپ کو لیکر سردار کے پاس آتے ہیں۔
ڈاکوئوں کا سردار آپ کے سر سے پائوں تک دیکھتا ہے اور پوچھتا ہے کہ لڑکے کیا تمہارے پاس چالیس دینار ہیں؟ آپ فرماتے ہیں کہ ہاں ہیں۔ سردار پوچھتا ہے کہ تلاشی لینے پر تو برآمد نہیں ہوئے وہ دینار کہاں ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ میری قمیض کے اندر سِلے ہوئے ہیں ، یہ سن کر ڈاکو جلدی میں آپ کی قمیض ادھیڑ ڈالتا ہے اور اندر والدہ محترمہ کے ہاتھ کے سِلے ہوئے چالیس دینار برآمد ہوتے ہیں۔ وہ چشم حیرت سے آپ کو دیکھتا ہے اور پوچھتا ہے کہ تم بڑی آسانی سے یہ دینار بچا سکتے تھے آخر تمہیں یہ سچ بتا کر کیا ملا، نو عمر عبدالقادر جن کے سر پر وقار پر حضرت غوث اعظم کا تاج سجنا تھا نے بڑے تحمل اور اعتماد سے جواب دیا کہ میری ماں کا مجھ کو یہی حکم تھا۔
اب وہ ڈاکو جس کی ساری عمر لوگوں کو لوٹتے اور ڈاکے ڈالتے گزری تھی کے دل پر نوعمر عبدالقادر جیلانی کے الفاظ کا سخت اثر ہوتا ہے۔ اس کی حالت یکسر بدل جاتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ ایک یہ بچہ ہے جو اپنی ماں کے حکم کا دل جان کے سخت خطرہ کے دوران بھی پاسداری کرتا ہے اور دوسری جانب میں ہوں جو اپنے مالک کا اتنا نافرمان ہوں جو مخلوق خدا کو آزار اور تکلیف پہنچاتا ہے ، وہ زار و قطار روتا ہے اور مالک سے اپنے گناہوں کی معافی کا طلبگار ہوتا ہے اور صدق دل سے توبہ کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب عطا کرتا ہے اس کے دیگر ساٹھ ساتھی بھی معافی کا رستہ اختیار کر کے ڈکیتی کی راہ ترک کرتے ہیں ، یوں ہم دیکھتے ہیں کہ والدہ کی تربیت اور نصیحت کیسے ڈاکوئوں کے پورے گروہ کی کایا پلٹ کا باعث بنتی ہے اور ڈاکوئوں کا پورا گروہ نوعمر عبدالقادر جیلانی کے پیروں پر گر کرمعافی کا طلبگار اور ان کے دست حق پر توبہ کا طلبگار ہوتا ہے۔
ہم نے پرائمری کلاس میں اس عظیم الشان اور منفرد واقعہ پر نظم پڑھی تھی جس کے چند بکھرے ہوئے شعر ابھی بھی یاد ہیں
میرے پاس چالیس دینار ہیں ، میرے پاس چالیس دینار ہیں
خبر سن کے چالیس دینار کی ٹپکنے لگی رال سردار کی
بہت جھڑکیاں اس کو دینے لگا
بتا کیا مِلا تجھ کو سچ بول کر
میری ماں کا مجھ کو یہی حکم تھا
ہم دیکھتے ہیں بغداد آنے کے بعد ماں کے لاڈلے نوعمر یتیم عبدالقادر کے لیے کوئی دودھ شہد کی نہریں نہیں بہہ رہی تھیں انہیں سب سے بڑا مرحلہ اعلیٰ تعلیم کا حصول تھا انہوں نے نو سال تک یہاں حضرت شیخ حماد بن دباس اور یگر معروف علماء کرام سے مختلف علوم پر دسترس حاصل کی، والدہ محترمہ کے دئیے ہوئے چالیس دینار تو کب کے ختم ہو چکے تھے اور پھر یوں بھی ہوتا کہ بیس روز تک بھی انہیں فاقہ کرنا پڑا اور ادھر جیلان میں ان کی والدہ محترمہ نصف رات کو اٹھ کر شب حق سے سجدے میں اس مالک کون و مکاں سے اپنے لخت جگر کی کامیابی کے لئے التجاء کر رہی تھی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ فاقہ کش یتیم لخت جگر کی اعلیٰ تعلیم کے لیے جدائی کا درد اٹھانے والی اس قابل فخر ماں کا یہ قابل فخر صاحبزادہ ایک دن امام شریعت و طریقت غوث الوریٰ ، غوث العالمین ، امام الاولیاء قطب لاقطاب سیدنا غوث الاعظم کے نام و مرتبہ پر فائز ہوا اور دنیا قیامت تک ان کے در کی خاک کو سرمہ اکسیر جانے گی۔