معاشی بحران اورڈیفالٹ کاخطرہ!


موجودہ معاشی صورتحال، سیلاب کے متوقع 30ارب ڈالر کے معاشی نقصانات، سیاسی عدم استحکام، موڈیز اور فٹچ کی پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ منفی کرنے کی وجہ سے پاکستان کو آئندہ5سال میں ڈیفالٹ کاخطرہ بڑھ کر53فیصد تک پہنچ گیا ہے، جو فروری2020ء میں کورونا سے پہلے صرف 5 سے 6 فیصد تھا اورآتی ایم ایف پروگرام بحال نہ ہونے کی وجہ سے بڑھ کر 30 فیصد ہوگیا تھا، لیکنا آئی ایم ایف کے 6.5 ارب ڈالر کے پروگرام کی بحالی اور1.2 ارب ڈالر کی قسط ملنیاور دیگر مالیاتی اداروں ورلڈ بینک،ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور اسلامک ڈویلپمنٹ بینک کی جانب سے 6.5 ارب ڈالر فنڈز کیاعلان کے بعد پاکستان کے ڈیفالٹ رسک میں کمی آئی تھی۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ڈالر کو آزاد چھوڑ کر ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کیا گیا، ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ملکی قرضے میں چار ہزار ارب روپیکااضافہ ہواتھا، اسحاق ڈار نے ڈالر کو 200 روپے سے کم اورروپے کی قدرکوبہتر کرنے کاعزم کیاہے۔پاکستان کی بدقسمتی کہ ہر دور میں حکمران معیشت کی تباہی کی زمیداری سابقہ ادوار کی غلطیوں کو گردانتے آرہے ہیں۔ 
موجودہ تشویشناک صورتحال، سیاسی عدم استحکام، کمزور معاشی حالات،گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر، بڑھتا ہوا کرنٹ اکائونٹ اور تجارتی خسارہ، بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں،عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کی پاکستان کیلئے منفی کریڈٹ ریٹنگ، انٹرنیشنل مارکیٹ میں حکومتی بانڈز کی قیمت میں ریکارڈ کمی، عالمی کساد بازاری سے ملکی ایکسپورٹ میں کمی، 30فیصد افراط زر، روپے کی قدر میں کمی اور لانگ مارچ سیانٹرنیشنل مارکیٹ میں حکومتی ڈالر سکوک بانڈز کی قیمت پر اثر سے پاکستانی بانڈز کی قیمت 60 سے65 فیصد کم ہوگئی ہے، اور2024ء اور2036ء میں واجب الادا بانڈزکی قیمتیں نچلی ترین سطح پرآچکی ہیں۔پاکستان کے بیرونی قرضوں میں 42 فیصد قرضے کنسورشیم ممالک، 40 فیصد باہمی ممالک، 7 فیصد عالمی بانڈز مارکیٹ اور 7 فیصد کمرشل بینکوں کے ہیں۔ رواں مالی سال 2022-23ء  میں پاکستان کو 32 سے 34 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنا ہے جبکہ ہمارے بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوکر 7.5ارب ڈالر رہ گئے ہیں جواگست 2021 میں20ارب ڈالر تھے۔سیلاب کے معاشی نقصانات کے پیش نظر پاکستان نے چین سے 6.3ارب ڈالراورپیرس کلب 27 ارب ڈالر کے قرضوں کی ری شیڈولنگ کی درخواست بھی کی، جبکہ 2023 ء میں پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے 22.8 ارب ڈالر کے فنڈز ملنے کی توقع ہے جن میں چین، یو اے ای اور سعودی عرب کے سافٹ ڈپازٹ بھی شامل ہیں۔آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال پاکستان کی جی ڈی پی میں قرضوں کی شرح79 فیصد ہے جسے 2027ء تک کم کرکے 60 فیصد تک لانا ہوگا کیونکہ اضافی قرضوں سے قومی خزانے پر سود کا بوجھ ناقابل برداشت حد تک بڑھ گیا ہے۔ اقوام متحدہ ڈویلپمنٹ پروگرام کے مطابق کساد بازاری کی وجہ سے دنیا کے 54 ممالک معاشی بحران کا شکار ہیں جس میں 46 ممالک کے قرضے 2020ء میں بڑھ کر782 ارب ڈالر تک پہنچ گئے جن میں ارجنٹینا، یوکرین، وینزویلا، سری لنکا، پاکستان، تیونس، چاڈ اور زیمبیا شامل ہیں۔ سٹیٹ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے بیرونی قرضوں کا حجم تقریباً ساٹھ ٹریلین روپے ہو گیا ہے جبکہ اندرونی قرضوں کا حجم بھی تیس ٹریلین روپے کے قریب ہے۔
پاکستان معاشی بحران پر قابو پانے کیلیے قابل عمل پالیسی کی تلاش میں ہے۔ ان حالات میں خوش آئیند ہے کہ ایشین ڈیولپمنٹ بینک نے 1.5ارب ڈالر کے فنڈزاسٹیٹ بینک کے اکائونٹ میں جمع کرادیئے ہیں جس سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 9ارب ڈالر تک پہنچ جائینگے جس میں کمرشل بینکوں کے5.7 ارب ڈالر شامل نہیں لہٰذاملکی امپورٹس میں کمی اور ایکسپورٹس میں اضافہ سے تجارتی اور کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی لانا ہوگی۔سی پیک معاہدے پر دستخط سے پہلے چین کی پاکستان میں کل سرمایہ کاری 15 ارب ڈالر کے لگ بھگ تھی، جو اب بڑھ کر 33 بلین ڈالر سے تجاوزکر چکی ہے۔ چینی کمپنی ہوواے 2018 ء میں43 ملین ڈالرکے ساتھ ٹیکس ادا کرنیوالی بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔2015 میں صدر شی جن پنگ کے دورہ پاکستان کے دوران پاکستان اور چین نے سی پیک معاہدے پر دستخط کئیہیں۔ سی پیک سے متعلقہ توانائی کے منصوبوں نے کوویڈ 19 کے دوران 23,000 افراد کو ملازمتیں فراہم کیں۔ توقع ہے کہ سی پیک کا دوسرا مرحلہ معاشی ترقی اور ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز کرے گا، چینی کمپنیوں نے پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ مل کر دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع کر دی ہے جس کے کثیر الجہتی فوائد ہیں۔اس میں6.4ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے اوراس سے 4,500 میگا واٹ سستی بجلی پیدا ہوگی۔ یہ تعمیراتی مرحلے کے دوران 16,000 ملازمتیں پیدا کریگا۔ ڈیم پاکستان کو 1.2 ملین ایکڑ اراضی کو سیراب کرنے میں مدد دیگا، جس سے غیر ہنر مند مزدوروں کیلئے روزگار کو فروغ ملے گا۔ اسکے علاوہ، یہ خوراک اور غیر غذائی مصنوعات کی بہتر پیداوار کے ذریعے صنعت کیلئے غذائی عدم تحفظ اور خام مال کی قلت سے نمٹنے میں مدد کریگا۔ توانائی کے شعبے میں داسو، کروٹ اور آزاد پتن منصوبے قابل تجدید اورنمایاں ہیں۔امریکہ اورچین شدید اقتصادی اورتجارتی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔چین 1.4بلین لوگوں کی ایک بہت بڑی منڈی ہے، مارکیٹ سائز میں بڑے فرق کی وجہ سے امریکہ چین کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ چین نے سی پیک اور ہمیشہ اپنے بے مثال تعاون کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ وہ پاکستان کیساتھ کھڑا رہے گا، دوسری طرف یورپ اورامریکہ نے پاکستان کو جھکانے کیلئے آئی ایم آف اور دیگر اداروں کو استعمال کیا، یہ عالمی سیاسیت، معیشت اور پاور پلے ہے۔ امریکہ اور یورپ پاکستان سے ناراض رہے گاجب تک وہ CPEC اور چین کو ترک نہیں کر دیتا، باوجود اسکیامریکا اوریورپ بھارت کو پاکستان پر ترجیح دینگے۔بھارت اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

ای پیپر دی نیشن