حضرت دائود علیہ السلام ، اللہ رب العزت کے مقرب اوراولعزم رسولوں میں ایک ہیں ، آپ کا ظہورِ عام اس وقت ہوا جب طالوت کی جماعت ،جالوت کے مقابل صف آراء تھی، آپ اس وقت جوان تھے، اورباقاعدہ طور پر لشکر میں شامل نہیں تھے ، بلکہ آپکے والد نے آپ کو بھائیوں اوردیگر افراد کی خبر گیری کیلئے بھیجا تھا، لیکن جب آپ نے جالوت مبارزت آرائی اوربنی اسرائیل کی قلتِ تعداد کودیکھا تو آپ سے نہ رہا گیا ، آپ نے طالوت سے اجازت چاہی کہ انھیں جالوت کے چیلنج کاجواب دینے کا موقع دیا جائے ، طالوت نے ان کی کم عمری اورناتجربہ کاری کے پیش نظر پس وپیش کیا مگر آپکا اصرار بڑھتا ہی رہا آخر کار اسے اجازت دینی ہی پڑی ، حضرت دائود علیہ السلام آگے بڑھے اورجالوت کو للکارا ، اس نے ایک نوجوان کواپنے مقابل پاکر زیادہ توجہ نہ دی لیکن جب آپکی پیش قدمی جاری رہی اوروہ آپ سے نبرد آزما ہواتو اسے آپکی خدادادقوت کا اندازا ہوا۔ آپ نے لڑتے لڑتے اپنی گوپھن سنبھالی اورتاک کر پے درپے تین پتھر اسکے سرپر مارے ، اس کا سر چٹخ کررہ گیا آپ نے آگے بڑھ کر اسکا سرقلم کردیا، جالوت کا یہ انجام دیکھ کر اسکی فوج کے پائوں اکھڑگئے اوربنی اسرائیل کو فتح مبین نصیب ہوئی۔ اسرائیلی روایات کیمطابق طالوت نے اعلان کررکھا تھا کہ جو شخص جالوت کو کیفرکردار تک پہنچائے گا اسکے ساتھ اپنی صاحبزادی کو بیاہ دیگا اور اپنی نصف سلطنت کا اختیار اسے بخش دیگا، اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود ؑ کو نبوت اورحکمت سے بھی سرفرازفرمایا ، آپ سے پہلے نبوت اورسرداری الگ الگ قبیلوں میں ہوتی تھی، آپکی ذات ستودہ صفات میں اللہ تعالیٰ نے نبوت اور سلطنت دونوں کو جمع کردیا، طالوت کی وفات کے بعد آپ بنی اسرائیل کے بلاشرکت غیرے حکمران بن گئے۔ قرآن نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کے سب رسول نفس رسالت میں اورتمام انبیاء نفس نبوت میں برابر ہیں ، لیکن فضائل وکمالات ، مراتب ومقامات ، معجزات و مکرمات میں ایک دوسرے پر فضیلت رکھتے ہیں، اہل اسلام کو تعظیم نبوت کا خوبصورت متوازن عقیدہ دیاگیا ، مسلمان انبیاء کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے ، سب اللہ کے فرستادہ اورمستقل بذات نبی ہیں اور تمام انبیاء انسانی کمالات کی معراج پر ہیں ، لیکن کس کو ایک کمال میں امتیاز خاص دیاگیا ، کسی کو دوسرے خاص شرف سے مشرف فرمایا گیا ، ان میں بعض ایسے بھی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ سے کلام کا شرف بھی حاصل ہواہے ، اورذات پاک محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کرام میں ممتاز ترین ہے۔ لیکن اہل اسلام فضیلت کے موضوع پر اس احتیاط سے کلام کرتے ہیں کہ کسی ایک کی شان بیان کرنے سے دوسرے کی شان میں کمی کا تاثر ہر گز نہ ابھرے ۔
آیت الکرسی : حدیث پاک میں ہے جو شخص ہر نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھے اس کو جنت میں داخل ہونے سے موت کے سواکوئی چیز مانع نہیں ہوگی۔وہ مرتے ہی جنت میں داخل ہوجائیگا۔(سنن نسائی)