یہ خاکسار اپنے کالموں میں بارہا اس بات کا ذکر کر چکا کہ وہ اپنے اکثر کالم رات کے پچھلے پہر بیٹھ کر لکھتا ہے۔ یقین جانئے فکری بلوغت اور سرور کی کیفیت اس پہر جن انتہاؤں کو چھوتی ہے اسے لفظوں میں بیان کرنا کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ آج بھی حسب عادت رات کے اْسی پہر قلم لیکر بیٹھا ہوں لیکن آج خلاف معمول نہ وہ ذہنی آسودگی ہے نہ وہ دلی اطمینان، بس ایک کرب ہے جو دل کو چاٹ رہا ہے، روح کو انگاروں نے اسطرح اپنی آغوش میں لیا ہوا ہے جیسے کوئی گنہگار اپنی قبر کی پہلی رات کی پہلی پیشی بْھگت رہا ہو۔ آج قبر کے عذاب جیسے جس کرب سے گزر رہا ہوں وہ یا میں جانتا ہوں یا میرا خْدا۔
قارئین بلاشبہ آپ اس سارے آسیب کا سبب جاننا چاہ رہے ہونگے تو دوستو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دنوں میرے وطن پاکستان کو بیرونی خطروں نے نہیں بلکہ اندرونی فتنوں نے گھیر لیا ہے۔ جسے اب صرف خْدا ہی بھنور سے نکال سکتا ہے ورنہ اپنے تئیں ہماری اکثریت نے اس بار اپنی بربادی میں کوئی کثر نہیں چھوڑی لیکن اسکے ساتھ ایک دفعہ پھر دھیان قرآن پاک کے اْن صفحات کی طرف لوٹ جاتا ہے جہاں اْن قوموں کی ہلاکت کے قصے درج ہیں جنکے افکار، اعمال اور کردار ہمارے آج کے حال سے مختلف نہ تھے۔ سمجھ نہیں آ رہا اپنی اس گریہ زاری کا آغاز کہاں سے کروں، ابتدا اپنی ثقافت کی بربادی پر نوحہ خوانی سے کروں جس کے لبادہ کو ہم نے اسی دن سے تار تار کرنا شروع کر دیا تھا جس دن سے ہم نے آزادی کے سورج کی پہلی کرن دیکھی تھی یا پھر اس تہذیب اور تمدن کے جنازے سے کروں جسے ہم نے ایسے دفن کیا جیسے یہ برسوں پرانی گلی سڑی لاش ہو۔ ماتم کرنے نکلا ہوں تو اس دلیری اور شان کا بھی ذکر ہو جائے جسکے ساتھ ہم نے اپنے تعلیمی معیار کا قتل عام کیا ہے، ایسی بیدردی کے ساتھ تو شائد ہلاکو خان نے بھی بغداد کے کْتب خانوں کو نہیں اْجاڑا ہو گا جیسا سلوک ہم نے اپنے تعلیمی نظام کے ساتھ کیا ہے جس کا نتیجہ آ ج یہ ہے کہ آج ہم تعلیمی انحطاط کی اْن پستیوں کے باسی ہیں جہاں آزادی سے پہلے کا میٹرک پاس آج کل کے ماسٹر ڈگری ہولڈر پر علمی فوقیت کی دعویداری میں معتبر گردانا جا رہا ہے۔
منیر نیازی کا شعر ہے
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
ابھی اْلجھی گْتھیوں کو سلجھانے کے چکروں میں ہوں کہ عادت سے مجبور میرا ہمزاد میرے سامنے آ کھڑا ہوا ہے اور مجھے کہہ رہا ہے کہ جب تعلیمی انحطاط کی بات کر رہے ہو تو پھر یاد رکھو کہ زمینی حقائق کی روشنی میں آج کل کے دور میں ماضی سے کہیں زیادہ ماسٹر ڈگری اور پی ایچ ڈی ہولڈر زکی تعداد پائی جاتی ہے اس لیے تمہاری طرف سے تعلیمی انحطاط کی ٹرم کوئی وزن نہیں رکھتی۔ ہمزاد کی بات سن کر مجھے اپنی کم علمی کا احساس ہوا جس پر میں نے عرض کی کہ تعلیمی انحطاط سے میری مراد تعلیمی معیار کی تنزلی ہے تو ہمزاد کہنے لگا پھر یوں کہو کہ علم کا جو رزق ان ڈگری ہولڈروں نے سمیٹا ہے وہ صحت کے لحاظ سے کافی لاغر دکھائی دیتا ہے۔ ہمزاد اپنی پوری ترنگ میں آچکا تھا کہنے لگا کہ علم صرف تحریریں پڑھنے سے نہیں ملتا، علم حاصل کرنے کے لیے اس کی روح کو سمجھنا پڑتا ہے اور ہمارے ہاں ویسے بھی ڈگری ریسرچ کے ذریعے نہیں بلکہ نقل اور اثر و رسوخ کے بل بوتے پر لی جاتی ہے اور ڈگری علم کے لیے نہیں بلکہ نوکری کے لیے حاصل کی جاتی ہے لہذا ہمارا نظام یہاں عالم نہیں نوکر پیدا کر رہا ہے اور نوکر کی ذہنی صلاحیت اور استعداد کا ایک ذی فہم بڑی آسانی سے اندازہ لگا سکتا ہے۔
ہمزاد کی باتوں اور زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے جب اس قحط الرجال پر ایک نظر ڈالتا ہوں تو میرا دھیان اہل دانش کے اس قول کی طرف لوٹ جاتا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ جن معاشروں میں علم کے رزق کا قحط پڑنا شروع ہوتا ہے وہاں جہالت فروغ پاتی ہے اور جہالت تو ویسے بھی بانجھ نہیں ہوتی اور مجھے یہ کہنے میں ذرا برابر بھی جھجک نہیں ہو رہی کہ اس قول کی اگر کسی نے زندہ مثال دیکھنی ہو تو وہ آج آ کر ہمارے معاشرے کی ایک تصویری جھلک دیکھ لے۔ ہمزاد جو آئینہ دکھا رہا تھا اسکا عکس دیکھ کر صرف اتنا کہہ سکتا ہوں آج جن پرتشددکار روائیوں کا آسیب ہمارے سروں پر ناچتا دکھائی دے رہا ہے اسکی بنیادی وجہ بھی یقینا یہی علمی فقدان ہے۔ یقین جانیں جن معاشروں میں تیس تیس چالیس چالیس لوگوں کی ٹولیاں سڑکوں کو بند کر کے بیٹھی ہوں۔ ایمبولینسوں کو راستہ نہ مل رہا ہو، مریض سڑکوں پر جان کی بازی ہار رہے ہوں۔ ذاتی ایجنڈوں کی تکمیل کیلیئے پوری ریاست کا نظام داؤ پر لگ جائے وہاں صرف ایک ہی کلمہ ادا ہو سکتا ہے
’’اِنَّاللّٰہ وَاِنَّا اِلَیہ رَاجِعونَ۔
قارئین جہاں زندہ معاشروں کی موت واقع ہوتی ہے وہاں رتی بھر شعور رکھنے والے بھی اسی لمحے اپنی فاتحہ پڑھ لیتے ہیں لہٰذا آج کے کالم کی اختتامی لائنیں اس وضاحت کے ساتھ کہ صحافت کا جو سفر اس خاکسار نے آج سے دس سال پہلے اس اْمید کے ساتھ شروع کیا تھا کہ شائد اپنے اِس معاشرے کی بہتر نشو و نما میں اپنی بھی کوئی کوشش کار خیر کے طور پر کام آ جائیگی لگتا ہے اپنی زندگی کا وہ سفر رائیگاں ہی گیا اور بددلی کی انتہاء اب وہاں پہنچ چکی جہاں دل اور دماغ بھی سوچوں کا ساتھ دینے سے انکاری ہیں لہذا یہ ناچیز آج اس فیصلہ پر پہنچا ہے کہ اپنے ادارتی صفحہ کے ایڈیٹر جن کو استاد کا درجہ دیتا ہوں ان سے سردست تین ماہ کی چھٹی کی درخواست کروں۔ دوستو اس دوران غیر حاضری پر دل کْڑھے گا تو سہی لیکن کیا کیا جائے انشاء اللہ زندگی رہی تو پھر کبھی۔
٭…٭…٭