کرتار پور راہداری .... رواداری کی روشن مثال ( 1)


سبھی جانتے ہیں کہ کرتار پور راہداری کے قیام کو 4 سال ہو چکے ہیں، یہ ایک ایسا منصوبہ تھا جس کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر پاکستان نے عالمی دنیا پر واضح کر دیا کہ وہ بین المذاہب ہم آہنگی کا کتنا بڑا داعی ہے اور وہ اپنے انسان دوستی کے دعووں کو محض باتوں تک محدود نہیں رکھتا بلکہ ان پر پوری طرح عمل کرنے کی خواہش اور اہلیت رکھتا ہے۔ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان اور ہندوستان کے مابین تعلقات کی ایک مخصوص تاریخ ہے جو زیادہ خوشگوار نہیں ۔ اگرچہ اس ضمن میں اپنے قیام کے روز اول سے پاکستان کی کوشش اور خواہش رہی کہ عالمی برادری کے سبھی ملکوں کے ساتھ خوشگوار ہمسائیگی اور برابری کی سطح پر تعلقات قائم کئے جائیں۔ اپنی اس کاوش میں پاکستان کو بڑی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ وطن عزیز کی سبھی حکومتوں نے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر بدقسمتی سے ہندوستان کی شکل میں ہمیں ایک ایسا ہمسایہ میسر آیا جس نے مملکت خداداد کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور وہ اپنی اس ناپسندیدہ روش پر تاحال قائم ہے ۔ متعدد مواقع پر ہندوستان کو پیشکش کی گئی کہ پاکستان بھارت کیساتھ کسی بھی سطح، کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت مذاکرات کیلئے تیار ہے کیونکہ پاکستان کو اس بات کا ادراک ہے کہ جنگیں اور تلخیاں کبھی مسائل کا حل ثابت نہیں ہوتیں بلکہ ان میں مزید بگاڑ کا باعث بنتی ہیں اور بالآخر فریقین کو مذاکرات کی میز ہی معاملات سلجھانے پڑتے ہیں ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دہلی سرکار نے کبھی امن کی اس پیشکش کی طرف نہیں بڑھایا بلکہ اپنے طرز عمل سے ثابت کیا کہ وہ قطعاً پائیدار امن کے خواہاں نہیں وگرنہ ہندوستان دکن حیدرآباد، جونا گڑھ اور مناور کو ہڑپ نہ کرتا، سکم پر قبضہ نہ کرتا، مسئلہ کشمیر جیسے عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازعے کی بابت منفی روش نہ اپناتا، بھارتی مسلمانوں پر زمین تنگ نہ کرتا اور نہ ہی سکھوں و دیگر اقلیتوں کیخلاف مظالم کا لا متناہی سلسلہ شروع کرتا۔ 
گرودوارہ دربار صاحب کرتار پور ضلع نارووال کی تحصیل شکر گڑھ کے قریب گاﺅں ” کوٹھے پنڈ“ میں لاہور سے قریباً 120 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ سکھوں کیلئے اس مقام کی اہمیت انتہائی زیادہ ہے کیونکہ سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک یہاں مقیم ہوئے اور لوگوں کو دین کی تعلیم دیتے رہے، انھوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام بھی یہیں گزارے ۔ یاد رہے کہ بابا گرو نانک کی پیدائش 15 اپریل 1469 عیسوی کو ننکانہ صاحب میں ہوئی اور 22 ستمبر 1539 میں انھوں نے اسی کرتار پور میں وفات پائی۔ ان کے والد کا نام مہتا کلیان داس اور والدہ کا نام ماتا ترپتا تھا۔ گرودوارے کی قدیم عمارت دریائے راوی میں آنے والے سیلاب کے باعث تباہ ہو گئی تھی جس کے بعد پٹیالہ کے مہاراجہ بھوپندر سنگھ بہادر نے 1921 تا 1929 کے درمیان گرودوارہ صاحب کی دوبارہ تعمیر کروائی ۔ بہرحال گرو نانک 1521 میں اس مقام پر تشریف لائے اور کرتار پور کے نام سے اس گاﺅں کو آباد کیا۔ راویات بتاتی ہیں کہ اس علاقے کے مسلمان اور سکھ ان سے اتنی محبت کرتے تھے کہ دونوں انھیں انتہائی قابل احترام رہنما سمجھتے تھے، انکی آخری رسومات بھی یہیں ادا کی گئیں البتہ اس بابت تاریخی حوالوں میں مختلف نوع کے تضادات موجود ہیں ۔ بہرحال گرودوارہ کرتار پور صاحب کی اہمیت سکھوں کیلئے انتہائی مقدس مذہبی مقام کی ہے ۔ یہ اپنی نوعیت کی منفرد زیارت ہے جو پاکستان میں واقع سکھوں کے دیگر مقدس مقامات ڈیرہ صاحب لاہور، پنجہ صاحب حسن ابدال اور ننکانہ صاحب کے برعکس سرحد کے قریب ایک دور دراز گاﺅں میں واقع ہے۔پکی سڑک یعنی شکر گڑھ روڈ سے نیچے اترتے ہی ایک دلفریب منظر آنے والوں کا منظر ہوتا ہے گویا سرسبز کھیت زائرین کو خوش آمدید کہتے ہیں ، دُور درختوں کی چھاﺅں میں چلتے ٹیوب ویلز اور کھیتوں کے درمیان گرودوارے کی سفید عمارت پرسکون دیہی ماحول میں کھیتوں میں بیٹھے سفید پرندے کی مانند دکھائی دیتی ہے۔ گرودوارے کی عمارت کے باہر ایک کنواں ہے جو گرو نانک دیو کے زیر استعمال رہا، اسی مناسب سے اسے ” سری کُھو صاحب“ کہا جاتا ہے۔ گرودوارے کی مرکزی عمارت کے باہر کشادہ صحن ہے جہاں لنگر خانہ اور یاتریوں کے قیام کیلئے کمرے موجود ہیں۔ سرحد کے اُس پار بھارتی شہر ڈیرہ بابا گرو نانک میں ایک درشن ستھان یعنی ”زیارت کا مقام“ ہے جہاں سے سکھ یاتری دُور بینوں کا استعمال کر کے گرودوارہ دربار صاحب کو دیکھتے ہیں۔ 
18 اگست 2018 کو بھارتی پنجاب میں کانگرس کے سربراہ اور معروف کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو سابق وزیراعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے پاکستان آئے۔ اس موقع پر پاک افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے نوجوت سدھو کو بتایا کہ پاکستان گرو نانک دیو کے 550 ویں یوم پیدائش کے موقع پر کرتار پور راہداری کو کھولنا چاہتا ہے تا کہ سکھ مذہب کے پیروکار اپنے مقدس ترین مقام کی زیارت کیلئے آ سکیں۔ پاکستان کے اس اعلان سے بھارت اور دنیا بھر میں بسنے والے لاکھوں کروڑوں سکھوں میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ جنرل باجوہ کے اعلان کے بعد تیزی سے راہداری کی تعمیر کا کام شروع ہوا جس کے نتیجے میں 9 نومبر 2019 کو کرتار پور راہداری کا افتتاح کیا گیا ۔ محض یہی نہیں بابا گرونانک دیو کی جائے پیدائش ننکانہ صاحب میں ”بابا گرو نانک یونیورسٹی“ کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا ۔ بہرحال کرونا وائرس کے باعث دربار صاحب کرتار پور سکھ زائرین کیلئے صرف پانچ ماہ تک کُھلا رہ سکا۔ کرونا وبا کے پیش نظر بھارت نے 16 مارچ 2020 کو اسے بند کر دیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس مدت کے دوران ایک لاکھ سے زائد ہزار سکھ زائرین نے اس مقدس مقام کی زیارت کی۔ اس تناظر میں یہ امر باعث افسوس ہے کہ بھارت نے سکھوں کو کرتار پور آنے سے روکنے کیلئے کرونا کو بہانہ بنایا مگر وبا کی شدت میں کمی کے بعد سکھوں کی نمائندہ تنظیم شرومنی گرودوارہ پربندھک کمیٹی نے مودی سرکار سے مطالبہ کیا کہ جلد از جلد اس راہداری کو سکھ زائرین کیلئے کھولا جائے۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب چرنجیت سنگھ چنی نے سکھ رہنماﺅں کے ہمراہ مودی سے ملاقات کی اور راستہ کھولنے کا مطالبہ کیا جس کے بعد بی جے پی نے 2022 کے اوائل میں پنجاب کے صوبائی انتخابات کے پیش نظر سکھوں میں نرم گوشہ پیدا کرنے کیلئے بالآخر 20 ماہ قائم رہنے والی اس پابندی کو اُٹھا لیا ۔ پابندی ہٹنے کے فوراً بعد وزیراعلیٰ چنی اور انکی کابینہ کے 37 رکنی اعلیٰ سطحی وفد نے گرودوارہ دربار صاحب کرتار پور کی زیارت کی ۔ 


کرتار پور راہداری .... رواداری کی روشن مثال (2 ) 
 ( گذشتہ سے پیوستہ ) بہرحال راہداری کے دوبارہ کھلنے کے بعد سے اب تک بیسیوں اہم سکھ شخصیات اور لاکھوں زائرین کرتارپور کا دورہ کر چکے ہیں۔ چند ہفتے قبل 4 اکتوبر 2022 میں کو ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور نامور گیند باز بِشن سنگھ بیدی اپنے اہلخانہ کے ہمراہ کرتار پور آئے ۔ 
 ماہرین کے مطابق 1984 میں سکھوں کی نسل کشی کے بعد سبھی بھارتی خفیہ اداروں کی ہدایت پر کانگرس اور خصوصاً BJP نے شعوری کوشش کی کہ سکھوں کو کسی بھی طور واپس قومی دھارے میں لایا جائے اور اس مقصد کےلئے مختلف سطح پر بیک وقت کئی قلیل مدتی اور طویل المدتی پالیسیاں بنائی گئیں۔ مثلاً ایک جانب 1986 میں آر ایس ایس نے ” راشٹریہ سکھ سنگت“ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس کو انتہائی منظم اور مربوط طریقے سے پورے بھارت کے سکھوں میں پروان چڑھایا گیا ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپریشن بلیو سٹار کے بعد سے بھارتی حکومت (بھلے ہی وہ کانگرس ہو یا BJP ) نے دانستہ طور پر یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ سکھ درحقیقت ہندوﺅں کا ہی ایک فرقہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس خیال کو عملی شکل دینے کی غرض سے 2002 میں انڈین آرمی کے سابق سکھ ایئرمارشل ”ارجن سنگھ“ کو ”مارشل آف دی ایئر فورس“ کا اعزاز دیتے ہوئے انھیں بھارتی ایئر فورس کا واحد ”فائیو سٹار ایئرچیف “ بنانے کا انتہائی ”غیر معمولی“ قدم اٹھایا گیا ۔ یاد رہے کہ موصوف 1965 کی جنگ کے دوران بھارت کے ایئر چیف تھے۔ یوں انھیں جنگ کے 37 برس بعد نجانے کس ”خدمت “کے عوض یہ اعزاز بخشا گیا۔ ظاہر سی بات ہے کہ بھارتی ایجنسیوں کی شہہ پر انڈین ایئر فورس کی پوری تاریخ پر بھاری یہ غیر معمولی قدم اٹھایا گیا جس کا مقصد صرف اور صرف یہی تھا کہ کسی بھی طور سکھ قوم میں موجود ہندو مخالف جذبات کو قدرے ٹھنڈا کیا جائے۔ واضح رہے کہ 16 ستمبر 2017 کو موصوف 98 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ بہرحال بات ہو رہی تھی راشٹریہ سکھ سنگت ، RSS اور BJPکی ملی بھگت کی۔ قابلِ توجہ ہے کہ 1986 میں راشٹریہ سکھ سنگت کے قیام کے بعد سے اب تک راجستھان، دہلی، اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور خصوصاً پنجاب میں اس کی 500 سے زائد شاخیں قائم ہو چکی ہیں۔دوسری جانب بھارتی سکھوں میں بھی خاصی حد تک RSSاور بھارتی ایجنسیوں کی اس سازش کا ادراک ہو چکا ہے۔تبھی تو 2004 میں ”اکال تخت“ کے اس وقت کے جتھے دار ”جوگندر سنگھ ودیانتی“ نے راشٹریہ سکھ سنگت کو ”سکھ دشمن“‘ تنظیم قرار دے دیا تھا۔ 2009 میں ایک سکھ تنظیم ”ببر خالصہ“ نے اس وقت کے راشٹریہ سکھ سنگت کے سربراہ رُلدا سنگھ کو پٹیالہ میں موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اکتوبر 2017 میں اکال تخت کے جتھے دار گیانی گربچن سنگھ نے کہا تھا کہ ” RSS راشٹریہ سکھ سنگت کو استعمال کرتے ہوئے سکھ دھرم کو ہندو ازم میں ضم کرنے کی مذموم کوشش کر رہی ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں، بھارت کے لئے نمایاں کارنامے انجام دینے والے سکھ بھی جب پنجاب سے باہر جاتے ہیں تو انھیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، سکھ دھرم ہندو مذہب سے بالکل علیحدہ ہے اور سکھ ایک علیحدہ قوم ہے ، اگر آر ایس ایس اپنی حرکتوں سے باز نہ آئی تو اس کے نتائج خوش آئند نہیں نکلیں گے“۔ 
 غیر جانبدار مبصرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ سکھ قوم اور پاکستان کے مابین باہمی تعلق خاصی مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکا ہے، جسے اس خطے کے کلچر کیلئے اچھا شگون قرار دیا جانا چاہیے، اس کی بنیادی وجہ شاید یہ ہے کہ بھارتی پنجاب اور پاکستانی پنجاب کے لوگوں نے تقسیم ہندوستان کے انسانی المیے کو جتنا قریب سے دیکھا ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اکثر ماہرین متفق ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت تقریباً 10 لاکھ افراد موت کی بھینٹ چڑھ گئے اور ان میں سے 90 فیصد کا تعلق دونوں اطراف کے پنجاب ہی سے تھا۔ شاید یہی وجہ ہو کہ مشرقی پنجاب اور پاکستان حقیقی معنوں میں امن کے ”متلاشی“ ہیں۔ کرتار پور راہداری بھی اسی ضمن میں ایک بڑا قدم ہے۔ یوں بھی اگر یہ عمل آگے بڑھے تو اس کے دیر پا اثرات پورے جنوبی ایشیاءخصوصاً پاک و ہند کے مابین ثقافتی ہم آہنگی کا سبب بن سکتے ہیں اور آگے چل کر مقبوضہ جموں کشمیر کے منصفانہ حل میں بھی معاونت فراہم کر سکتے ہیں۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ ثقافتی روابط بعض اوقات مذہبی روابط سے بھی زیادہ مضبوط ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے میں آگے چل کر پورے جنوبی ایشیاءمیں معاشی ترقی ،خوشحالی و رواداری کے دروازے کھلنے میں معاونت مل سکتی ہے۔ یہ امر کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ پاکستان کی حکومت، عوام اور سول سوسائٹی پہلے ہی سے اس ضمن میں مقدور بھر مثبت کردار ادا کر رہی ہے، ایسے میں عالمی برادری بھی اس حوالے سے اگر اپنا انسانی فریضہ نبھائے تو پورا جنوبی ایشیائی خطہ بہتر مستقبل کی جانب گامزن ہو سکتا ہے۔ (ختم شد) 

ای پیپر دی نیشن