بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے سائنس دان پھر اس بحث میں ا±لجھے ہوئے ہیں کہ کائنات کتنی بڑی ہے اور اس کی شکل کیسی ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ گھوڑے کے نعل جیسی ہے۔ چلو مان لیا کہ گھوڑے کے نعل جیسی ہے تو یہ بتاﺅ کہ اس نعل کے دائیں بائیں اوپر نیچے یعنی چار جہت کیا ہے۔؟۔ اسی سے پتہ چل جائیگا کہ کائنات کتنی بڑی ہو سکتی ہے۔ مثلاً جہاں جہاں یہ نعل ختم ہوتا ہے، وہاں کیا ہے؟ اگر کچھ نہیں ہے تو یہ ”کچھ نہیں“ کیا ہے اور اگر کچھ ہے تو کیا ہے۔
سائنس دان ”محدود“ ہے پر بحث کر رہے ہیں ہم غیر سائنس دانوں کی سوئی لامحدود پر اٹکی ہے یعنی سوچتے ہیں کہ کائنات جس مکان میں ہے، وہ کتنا بڑا ہے اور جہاں وہ مکان تھے، وہاں سے آگے کیا ہے۔ سائنس تھیوری دیتی ہے کہ کائنات بڑے دھماکے سے بنی۔ یہ دھماکہ کثیف مادے کا گولہ پھٹنے سے ہوا پھر مادہ پھیلتا چلا گیا۔ گویا گولہ مکان میں تھا، پھٹا تو مکان میں پھیل گیا اور پھیلتا جا رہا ہے اب اس ناقابل فہم بات کا حوالہ کوئی نہ دے کہ مکان خود سے نہیں ہوتا ہے، مادہ آتا ہے تو مکان بنتا ہے۔ یہ حوالہ دیا تو پھر یہ بھی بتانا پڑے گا کہ جہاں اور جب مکان ہیں ہوتا تو تب اور وہاں پھر اور کیا ہوتا ہے۔
کائنات تو بہت بڑی ہے۔ اتنی بڑی کہ اس کے فاصلے ناپنے کیلئے اکائی نوری سال ہے۔ معاف کیجئے گا، نوری سال کی اوقات ہی کیا، کم از کم ایک ارب نوری سال اکائی بنتی ہے بلکہ یوں کہیئے کہ ایک ارب نوری سال کی اکائی کہاں، اکائی تو ایک کھرب نوری سال کی بنتی ہے۔ اتنی بڑی ہے؟۔ نہیں، اس سے بھی بڑی کیونکہ سوال یہ ہے کہ ج ہاں یہ کائنات ختم ہوتی ہے، وہاں کیا ہے یعنی اس سے آگے، دائیں بائیں اوپر نیچے کیا ہے۔ کیا کوئی دیوار کھڑی ہے؟۔ دیوار کھڑی ہے تو دیوار کے اس پار کیا ہے اور دیوار نہیں ہے تو پھر کیا ہے۔ کچھ ہے تو وہ کیا ہے؟ کائیناتوں کا نیا سلسلہ؟ اور وہ کہاں تک چلتا ہے اور وہ جہاں تک چلتا ہے، اس کے بعد کیا ہے؟
سائنس دان کائنات کے راز کسی دن کھوج ہی لیں گے لیکن یہ کسی دن کب آئے گا۔؟ یہ اس دن آئے گا جب ....ٹھہرئیے پہلے کچھ اور جان لیجئے۔ سمندر میں پانی کے ایک قطرے میں پانی کے کتنے سالم (مالیکیول) ہوتے ہیں؟۔ جی ڈیڑھ ”سیکس ٹیلین“ کے لگ بھگ۔ ایک سیکس ٹیلین کتنا بڑا عدد ہے؟۔ جی، ایک کا عدد لکھ کر اس کے دائیں طرف 36 صفر لگا دیں۔(امریکی پیمانہ 21 صفر کا ہے) یہ کنے بنے، یہ تو بات پدم تیل اور سنگھ سے بھی کہیں آگے نکل گئی۔
تو اتنے مالیکیول ایک قطرے میں ہوتے ہیں۔ جس دن، ایک قطر ے کے ان سنگھوں تیلوں پدموں سالموں میں سے ایک سالمے نے ، وہیں اپنے قطر میں بیٹھے بیٹھے یہ راز پا لیا کہ سمندر کتنا بڑا ہے، اس میں کتنے قطرے ہیں اور کل ملا کر کتنے سالمے ہیں، سمندر کے پانی کا وزن کتنا ہے اور رقبہ کتنا اور اس میں ایک وقت میں کتنی موجیں اٹھتی ہیں، اس روز سائنس دان بھی کائنات کے راز معلوم کر لیں گے، یا شاید اس کے کچھ دن بعد کیونکہ ایک سالمے کے مقابلے میں سمندر جتنا بڑا ہے ہماری زمین اس کے مقابلے میں نامعلوم گنا بڑی ہے۔ یہ مقام اصل میں حیرت کا مکاں ہے۔
حیات و کائنات در روحانیات کے راز ایک مصری فلسفی افلاطون کا موضوع تھے، اس نے بہت بحث کی، بلکہ اس نے الٰہات پر بھی بات کی، بہت گہرا اور بہت بڑا فلسفی تھا لیکن بدقسمتی سے مشہور نہ ہو سکا، کیونکہ ساری شہرت، اس کے حصے کی بھی، اس سے دو سو سال پہلے آنے والا یونانی افلاطون ہتھیا چکا تھا۔ حالانکہ یونانی افلاطون اتنا بڑا فلسفی نہیں تھا جتنا مصر کا فلسفی۔
اور بتانے والی بات یہ ہے کہ کائنات کے راز آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں سوا دو ہزار سال پہلے والا مصری افلاطون (Plotinus) چھوڑ کر گیا تھا (وضاحتی نوٹ)تھوڑا بہت مشہور تو تھا، تو فلاطونیت کا بیان تھا، مشہور درجمہور۔
_______
نواز شریف نے ”فتوحات“ کا آغاز کر دیا۔ فتوحات شریفی کے نام سے کبھی اس کی بھی تاریخ لکھی جائے گی جیسا کہ چند سال قبل تسخیرات زرداری کے نام سے بھی ایک تاریخ لکھی گئی تھی۔
نواز شریف بلوچستان پہنچے اور 30 عدد ”الیکٹیبلز“ کو مسلم لیگ کے سایہ عاطفت میں لے لیا یعنی لگ بھگ بلوچستان کی ساری قیادت۔ یوں باپ پارٹی کا دریائے بلوچستان مسلم لیگ کے بحیرہ رائیونڈ میں آن ملا۔
بتانے کی بات یہ نہیں ہے کہ آئندہ کا سیاسی نقشہ واضح ہو گیا بلکہ یہ ہے کہ یہی باپ پارٹی ”پراجیکٹ عمران“ کے حتمی مرحلے کا نقطہ آغاز تھا اور یہی باپ پارٹی اب پراجیکٹ عمران کی لپیٹا لپٹی کے حتمی مرحلے کی شروعات بھی ثابت ہوئی تو زرداری صاحب بھی یاد آ گئے۔ وہ ”باپ“ کے پیچھے تھے اور ان کے پیچھے کوئی اورتھا۔ یہاں سے مسلم لیگ کی بساط لپٹنا شروع ہوئی تو پھر لپٹتی ہی چلی گئی۔ زرداری صاحب نے انہی دنوں یہ اعلان کیا تھاکہ مولوی نواز شریف، میں پنجاب میں بھی تمہاری حکومت نہیں بننے دوں گا اور سینٹ بھی تم سے چھین لوں گا اور پھر ایسا ہی ہوا۔زرداری کے لہجے میں بلا کا اعتماد، قیامت کی رعونت تھی۔
کوئی جب پیچھے ہوتا ہے، رعونت آ ہی جاتی ہے۔
لیکن اس کے عوض، ”کوئی“ نے زرداری صاحب سے جو وعدے کئے تھے، افسوس کہ پورے نہیں کئے۔ وعدہ نمبر ایک یہ کہ باپ بالآخر تمہاری طاقت بنے گی لیکن وہ پی ٹی آئی کی طاقت بنا دی گئی۔ وعدہ نمبر دو، وزیر اعظم عمران، صدر آپ ہوں گے۔ لیکن صدر پی ٹی وی کی عمارت پر قبضہ کرنے والے صاحب کو بنا دیا گیا اور زرداری صاحب کو یہ کہہ کر ٹال دیا گیا کہ کیا کریں صاحب، خان مان ہی نہیں رہا، آپ تسلی رکھیں، مناسب وقت پر آپ کو ”اکاموڈیٹ“ کر دیں گے۔
اس سارے کھکہھڑ میں زرداری صاحب نے ”رازداری“ کو ایک طرف رکھا اور کیا ہے کہ
"اور وہ جو کسی نے دیکھ لیا"
کی پروا بھی نہیں کی۔ ذرا نہیں چھپے، سامنے آ کر نواز لیگ پر وار کئے، عمران کے سہولت کار بنے__ وعدہ فردا پر یقین کر بیٹھے جو کبھی ایفا نہ ہوا کہ جس سے ”ایفا“ کی امید تھی، اسے دوسری ”ایکسٹنشن“ نہ ملی۔ اب زرداری صاحب کے لئے کوئی چارہ سوائے اس کے نہیں کہ لیول پلئنگ فیلڈ نہ ملنے کا شکوہ کریں۔ لیکن دقت اس میں بھی یہ آن پڑی ہے کہ مساوی فیلڈ نہ ملنے کا شکوہ تو کر رہے ہیں، ”شکوہ الیہ“ کو نشان زد نہیں کر پا رہے کہ کل پرسوں ہی قبلہ و سلّمہ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ہمارا کسی ادارے سے کوئی جھگڑا ہے نہ شکایت_ تو پھر کون ہے جو پیپلز پارٹی کو لیول پلے انگ فیلڈ نہیں دے رہا؟
_______