پوری دنیا کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جن سنگین مسائل کا سامنا ہے ان کے بارے میں بات کرنے اور ان سے متعلق کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے عالمی سطح پر جو تنظیم تشکیل دی گئی اسے کانفرنس آف دی پارٹیز یا کوپ کا نام دیا گیا۔ اس سلسلے کی پہلی کانفرنس مارچ اور اپریل 1995ءمیں جرمنی کے شہر برلن میں ہوئی اور گزشتہ تقریباً تین دہائیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ کوپ 28 یا مذکورہ سلسلے کی اٹھائیسویں کانفرنس رواں ماہ کی تیسویں تاریخ سے دبئی میں شروع ہورہی ہے اور یہ کانفرنس دسمبر کی 12 تاریخ تک جاری رہے گی۔ قریب دو ہفتے تک جاری رہنے والی اس کانفرنس کے دوران صرف کوپ کے اجلاس ہی نہیں ہوں گے بلکہ اس موقع پر چار اور اہم اجلاس بھی ہوں گے جن میں سے پہلا سی ایم اے 5 ہے یعنی کوپ میں شامل ان فریقین کا پانچواں اجلاس ہے جو معاہدہ¿ پیرس کا حصہ ہیں؛ دوسرا، سی ایم پی 18ہے یعنی کیوٹو پروٹوکول کے فریقین کا اٹھارھواں اجلاس؛ تیسرا، ایس بی آئی 59ہے یعنی مختلف اقدامات کے نفاذ کے لیے تشکیل دی گئی ذیلی تنظیم کا انسٹھواں اجلاس؛ اور چوتھا، ایس بی ایس ٹی اے 59 ہے یعنی سائنسی اور تکنیکی مشاورت کے لیے قائم کی گئی ذیلی تنظیم کا انسٹھواں اجلاس۔
یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں اور مستقبل میں یہ سلسلہ جاری رہنے کا امکان ہے۔ گزشتہ برس پاکستان کے تین صوبوں میں سیلاب نے بڑے پیمانے پر جو تباہی پھیلائی وہ بھی ان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ ہی سے پیدا ہوئی جن کے بارے میں ہمارا عام آدمی نہ تو کچھ جانتا ہے اور نہ ہی کچھ جاننا چاہتا ہے، اور اس کی بڑی وجہ ہے کہ ہماری اشرافیہ نے لوٹ مار کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع کررکھا ہے جس سے عوام صرف جسمانی ہی نہیں بلکہ نفسیاتی طور پر بھی بری طرح متاثر ہورہے ہیں، لہٰذا وہ کولھو کے بیل کی طرح اپنی تمام تر توانائی دو وقت کی روٹی حاصل کرنے پر لگا دیتے ہیں اور انھیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ دوسرے مسائل کیا ہیں اور ان پر قابو پانے کے لیے وہ کوئی کردار ادا کر بھی سکتے ہیں یا نہیں۔
بہت سے بین الاقوامی اور عالمی ادارے بار بار خبردار کرچکے ہیں کہ آئندہ برسوں میں پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اس سے بھی زیادہ نقصان ہونے کا امکان ہے جتنا پچھلے سال بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب کے باعث ہوا۔ پاکستان نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اور پروونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز (پی ڈی ایم ایز) نام سے کچھ ادارے تو بنا رکھے ہیں جن کا کام قدرتی آفات سے پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال کا جائزہ لینا اور نقصان سے بچاو¿ کے لیے اقدامات وغیرہ تجویز کرنا ہے لیکن عملی طور پر ان اداروں کی کارکردگی کیا ہے، وہ شاید ان اداروں سے وابستہ افراد بھی نہیں جانتے ہوں گے۔ ہاں، ان کی وجہ سے کچھ لوگوں کو روزگار کے اچھے مواقع میسر آگئے ہیں اور شاید یہ ادارے بنائے بھی اسی مقصد کے لیے گئے تھے کہ کچھ بااثر لوگوں کو ملازمتوں کے حصول کے لیے ادھر ادھر مارے مارے نہ پھرنا پڑے۔
پچھلے سال جب نومبر کی 6 سے لے کر 22 تاریخ تک مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں کوپ 27 منعقد ہوئی تو اس میں پاکستان ایک اہم موضوع تھا کیونکہ اس وقت پاکستان کے تین صوبوں میں شدید بارشوں اور سیلاب کے باعث اربوں ڈالر کا نقصان ہوچکا تھا اور جانی نقصان اس کے علاوہ تھا۔ صورتحال اس حد تک بگڑی ہوئی تھی کہ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے پاکستان آ کر سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا اور عالمی برداری سے اپیل کی کہ وہ اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کی مدد کرے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق، پاکستان میں مذکورہ سیلاب کی وجہ سے سوا تین کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے تھے۔ دنیا کو جب اس بات کا احساس دلایا گیا کہ یہ صورتحال بڑے اور طاقتور ملکوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے تو کوپ 27 کے موقع پر لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد ان ممالک کی مالی مدد کرنا تھا جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئے تھے۔
کوپ 27 کے موقع پر قائم کیے گئے فنڈ سے پاکستان کو کتنا فائدہ ہوا یہ ایک الگ بات ہے لیکن اس سلسلے کی قابلِ غور بات یہ ہے کہ پاکستان ایک لمبے عرصے سے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے نقصان اٹھاتا آرہا ہے تو یہاں یکے بعد دیگرے وجود میں آنے والی حکومتوں نے ایسے کون سے اقدامات کیے ہیں جن کی مدد سے ہم موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات پر قابو پانے کے قابل ہوسکے ہیں یا ان سے ہونے والے نقصانات سے خود کو بچانے کی اہلیت پیدا کرسکے ہیں؟ مزید یہ کہ ہم واقعی موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی سنگین صورتحال پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ ہیں بھی یا نہیں؟ اگر سنجیدہ ہیں تو کیا ہمارے پاس ایسی صلاحیت موجود ہے یا ہم نے وہ صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے جس کی مدد سے ہم موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نبرد آزما ہوسکتے ہیں؟
موسمیاتی تبدیلیوں کا ہی ایک اثر ان دنوں سموگ کی صورت میں بھی دکھائی دے رہا ہے جس سے لاہور سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے جو آبادی کے اعتبار سے کراچی کے بعد پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے ادارے مسلسل لاہور کی فضا کو مضر صحت اور نہایت مضر صحت زمروں میں شمار کرتے آرہے ہیں لیکن ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں۔ اس سلسلے میں جو اقدامات کیے جارہے ہیں انھیں، پنجابی محاورے کے مطابق، شلغموں سے مٹی جھاڑنے کا عمل قرار دیا جاسکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہیں اور ان کے اثرات میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے، لہٰذا ہمیں اس حوالے سے صرف سنجیدہ نہیں بلکہ نہایت سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ عالمی برادری ایک حد تک تو ہماری مدد کرسکتی ہے لیکن اس سے آگے ہمیں اپنی مدد خود ہی کرنا ہوگی۔ اس سلسلے میں ایک اہم کام یہ ہے کہ عوام کو ہر حوالے سے ریلیف مہیا کرتے ہوئے آگاہی دی جائے کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے کیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ آخری بات یہ کہ عوام کی شمولیت کے بغیر حکومت کسی بھی اقدام کو کامیاب نہیں بناسکتی!
٭....٭....٭