وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
میاں نواز شریف کے دورہ بلوچستان پر میر تقی میر کا یہ شعر صادق آتا ہے۔ وہ آئے اور چھا گئے۔ بات پی ٹی آئی چھوڑنے والوں تک رہتی تو ، صاحب سلامت کا اشارہ قرار پاتی مگر یہاں تو درجنوں بلوچ، پختون سیاسی رہنما جن میں چند ایک پنجابی سیٹلر بھی شامل ہیں۔ جوق در جوق مسلم لیگ نون میں جس طرح ”واصل بحق“ ہوئے ہیں اس پر ہر جگہ کہیں مسرت اور کہیں تعجب کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جو ریس یعنی الیکشن جیتنے والے لوگ ہیں۔ انہیں ”الیکٹیبلز“بھی کہا جاتا ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) نیشنل پارٹی ، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے علاوہ درجنوں موثر سیاسی رہنما ایک ساتھ مسلم لیگ (نون) میں شامل ہونے سے صوبے میں مسلم لیگ (نون)کی پوزیشن زمین سے آسمان پر جا پہنچی ہے۔ ان تمام بڑے بڑے رہنماﺅں کا نام لکھیں تو پورا صفحہ بھر جائے کالم میں اتنی گنجائش نہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور بڑی بات یہ بھی ہے کہ صوبے میں جے یو آئی (فضل الرحمن) پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی (محمود خان) بی این پی (مینگل) نیشنل پارٹی (ڈاکٹر مالک) بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) پہلے ہی مسلم لیگ (نون) کے اتحادی ہیں یوں الیکشن اگر ہوئے تو صوبے میں مسلم لیگ (نون) اور اس کے اتحادیوں کی اکثریتی حکومت بنے گی اور اپوزیشن میں چند ایک ارکان ہی براجمان نظر آئیں گے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے چپکے چپکے ان تمام سیاسی رہنماﺅں سے رابطے استوار کر رکھے تھے اور تمام معاملات طے پانے کے بعد انہوں نے نواز شریف کے دورہ بلوچستان کے موقع پر یہ اعلان کیا۔ بلوچستان پہلا صوبہ ہے جس کا وطن واپسی کے بعد نواز شریف نے دورہ کیا اور یہاں انہیں بھرپور حمایت ملی اور وزیر اعظم نواز شریف کے نعرے بھی لگے، جس سے شریف برادران کی نرم خو اور سب کو ساتھ ملا کر چلنے والی سیاسی پالیسی کی کامیابی ظاہر ہوتی ہے۔
مگر یہ سب کچھ اتنا آسان اور آرام د ہ نہیں۔ بہت سے اتحادی جن کے ساتھی مسلم لیگ میں شامل ہوئے ہیں۔ انہیں بھی صدمہ تو ہوا ہو گا۔ اسی طرح باپ پارٹی والے بھی اپنے بہت سے ساتھیوں سے محروم ہوئے ہیں وہ بھی پریشان تو ہیں ہی۔ اسی طرح اختر مینگل اور ڈاکٹر مالک بھی متفکر ہوں گے۔
مگر اس کے باوجود یہ بات بھی اہم ہے کہ مسلم لیگ نون میں اب بلوچ اور پٹھان بااثر رہنما?ں کی شمولیت سے اسے تقویت ملی ہے۔ اس کے قومی پارٹی ہونے کا امیج ابھرے گا۔ مگر کیا یہ سب نئے ساتھی کسی مشکل میں یا ابتلا کے دور میں بھی اپنی وابستگی پر قائم رہیں گے یا پھر ہمیشہ کی طرح پارٹی بدلنے میں کوئی سبکی محسوس نہیں کریں گے۔ اگر ثابت قدم رہتے ہیں تو یہ واقعی بڑی بات ہو گی۔ ورنہ یہ ہمارے سیاسی نظام کا المیہ ہے کہ ہم سب جو جیتنے والا ہو اس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہی دیکھ لیں آج پی ٹی آئی بلوچستان میں نظر نہیں آرہی۔
اب ان بھاری بھرکم سیاسی رہنما?ں پر ایک اہم ذمہ داری یہ بھی عائد ہو رہی ہے کہ یہ سب مل کر بلوچستان کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے کام کریں۔ وہاں کے ناراض سیاسی عناصر کو قوم پرست رہنماﺅں اور گمراہ عسکریت پسند گروہوں کو منا کر سیاسی ڈائیلاگ کر کے ، مزاکرات کر کے راہ راست پر لائیں تاکہ وہ بھی قومی دھارے میں شامل ہو کر صوبے کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کریں۔ مسلح گروپ جو افغانستان اور بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ اگر قومی دھارے میں شامل ہوتے ہیں صوبے میں امن قائم ہوتا ہے تو بلوچستان ترقی اور خوشحالی کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ یہاں کے عوام نہایت جفاکش، سادہ اور محب وطن ، قناعت اور محبت کرنے والے ہیں۔ ان کے دل جیت لیں تو یہ پرانی باتیں معاف کر دیتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ان کی تکالیف کا مداوا کیا جائے۔
امید ہے یہ سیاسی تبدیلی یہاں کے عوام کی زندگی بھی بدل جائے گی۔ قدرت نے اس صوبے کو بے شمار وسائل سے نوازا ہے تو کیوں نہ اب یہاں کے وسائل اس صوبے اور ملکی ترقی کی راہوں کو کھولیں۔ اس صوبے کی وجہ سے پورا ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر چل سکتا ہے۔ یوں ”بلوچستان سبز بات“ کا نعرہ بھی عملی شکل اختیار کرے گا۔ بلکہ واقعی ”ہماری آن ہماری جان بلوچستان بلوچستان“ والی بات بھی سچ ثابت ہو گی۔
بلاول کی بلوچستان کا قلعہ فتح کرنے پر آہ زاری اور جھنجھلاہٹ بھی اپنی جگہ درست ہے۔ وہ اور آصف زرداری عرصہ سے اہم بلوچ رہنماﺅں سے ملاقاتیں کر رہے تھے۔ مگر سوائے (ر)جنرل عبدالقادر بلوچ کے جو مسلم لیگ سے تھے انہیں وہ گوہر ہاتھ نہیں آئے جو مسلم لیگ ن نے چن لیے ہیں۔ اس لیے ان کے میاں صاحب کو بلوچستان نہیں پنجاب کی فکر کرنے کے مشورے پر اب مسلم لیگ کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ سندھ تو ویسے ہی پی پی کا ہے۔ ویسے تو اب خود پی پی کو بھی پنجاب پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے ، جہاں اسے امیدواروں کی قلت کا سامنا ہے۔
٭....٭....٭