8فروری کی الیکشن تاریخ کو سامنے رکھ کر اس وقت ملک کی سیاسی قوتوں کے درمیان انتخابی اتحاد اور نفاق پر مشتمل گرما گرمی جاری ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں کی چھوٹے صوبوں میں صف بندی سے تو یہی محسوس ہورہا ہے کہ وہ اپنے صوبوں میں ہوم ورک مکمل کرچکے ہیں یا انہیں اس بات کی گارنٹی مل گئی ہے کہ وہ سب صحیح کھیل رہے ہیں۔مسلم لیگ ن تو پنجاب میں ہوم ورک مکمل کرنے کا دعوی کررہی ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اچھی خاصی تعداد میںپارٹی ٹکٹ کے خواہشمند درخواستیں جمع کروارہے ہیں ، درخواستیں جمع کروانے کا سلسلہ 20 نومبر تک جاری رہے گا۔اب تک مجموعی طور پر 3 ہزار 741 سے زائد امیدوار اپنی درخواستیں جمع کروا چکے ہیں جن میں سے قومی اسمبلی کی کل 266 جنرل نشستوں کے لیے 1396 جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے اب تک 1890 امیدوار اپنی درخواستیں جمع کروا چکے ہیں۔خواتین و اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں پر اب تک 455 امیدواروں نے اپنی درخواستیں جمع کروائی ہیں۔ قومی اسمبلی کی ٹکٹ کے خواہشمند امیدوار درخواست کے ساتھ 2 لاکھ روپے جمع کروا رہے ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کے امیدواروں سے درخواست کے ساتھ پارٹی فنڈ کے لیے ایک لاکھ روپے کا بینک ڈرافٹ وصول کیا جا رہا ہے۔ٹکٹوں کے خواہشمند امیدواروں کی جانب سے پارٹی فنڈ میں اب تک کم و بیش 70 کروڑ روپے جمع ہو چکے ہیں اور توقع ہے کہ درخواستوں کی فیس کی مد میں 20 نومبر تک مسلم لیگ ن کو تقریبا ایک ارب روپے موصول ہوجائیں گے۔ذرائع نے بتایا کہ یہ سارا پیسہ پارٹی فنڈ میں جمع کیا جا رہا ہے اور اسے آئندہ عام انتخابات کی مہم کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی تنظیم سازی بھی مکمل نہیں ہوئی جس کی ایک وجہ تو یہ بتائی گئی ہے کہ پیپلز پارٹی کے حلقوں میں یہ سوال گونج رہے ہیں کہ آٹھ فروری کے انتخابات منعقدہونگے یا نہیں ؟اس پر پارٹی میںمختلف آراءپائی جارہی ہے اس وجہ سے پارٹی کی تنظیم سازی مکمل نہیں ہورہی۔اگر پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنی تنظیم سازی مکمل نہیں کررہی تو کوئی نہ کوئی سوال الیکشن کی مقررہ تاریخ پر اٹھتا ضرور ہے۔یہ سوال بھی ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جیسی بڑی سیاسی جماعتیں چھوٹے صوبوں کے اندر اپنی سیاسی مہم کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کیا انہیں اس با ت کا احساس ہے کہ چھوٹے صوبے الیکشن کے موقع پر اپنے صوبوں کے حقوق کا تقاضہ کرسکتے ہیں۔اپنی محرومیوں کی بات کرسکتے ہیں ، اس وقت زیادہ سیاسی جماعتوں کا رخ بلوچستان ہی ہے۔مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف،شہباز شریف اور مریم نواز ان دنوں بلوچستان کے دورے پر پہنچے ہوئے ہیں جہاں بلوچستان عوامی پارٹی سمیت دیگر پارٹیوں کے اہم ارکان سے مل رہے ہیںاور انہیں سیاسی جماعتوں اور سیاسی شخصیات کی طرف سے ساتھ دینے کی یقین دہانیاں بھی کروائی جارہی ہیں۔ نواز شریف کے دورہ کوئٹہ کے موقع پر سابق وزیر اعلی جام کمال، سابق وفاقی وزرا سردار فتح محمد حسنی، مجیب الرحمٰن، میر عاصم کرد، میر دوستین ڈومکی اور دیگر نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کیاہے۔نواز شریف کا کہنا ہے کہ عوام کو بجلی کے مہنگے بلوں سے آزاد کرنا چاہتے ہیں قوم اچھے لوگوں کا ساتھ دے، ہمیں اپنے لیے اقتدار نہیں چاہیے، ہمیں خوش حال پاکستان چاہیے۔بلوچستان کے بچوں کو تعلیم کی بہترین سہولیات دینا چاہتے ہیں، سوالاکھ ایکڑ سیراب کرنے والی کچھی کنال 50 ارب میں ہم نے بنائی، باتیں کرنے والے بہت آئے، عملی طورپر کچھ نہیں کیا۔ صرف مسلم لیگ (ن) نے کوئٹہ، گوادر، ژوب اور لورالائی کے بارے میں سوچا۔انہوں نے کہا کہ گوادر کو سندھ کے ساتھ ملایا، کوسٹل ہائی وے بنائی، کوئٹہ کو ڈیرہ اسمعٰیل خان کے ذریعے اسلام آباد سے ملا رہے ہیں۔2018 میں منصوبہ مکمل ہونا تھا ، یہ منصوبہ کیوں مکمل نہ ہوا، یہ نقصان عوام کا ہوا، بلوچستان کا ہوا، پاکستان کو ہوا، ڈیڑھ دن میں گوادر سے کوئٹہ لوگ پہنچتے تھے، ہم نے ان کی یہ تکلیف ختم کی۔ان کا کہنا تھا کہ گوادر کوئٹہ شاہراہ کی تعمیر سے اب آپ ناشتہ گوادر میں اور دوپہر کا کھانا کوئٹہ میں کھا سکتے ہیں۔ کچھ فرق تو ہے باتیں کرنے اور عمل کرنے والوں میں، کہاں گئی وہ تبدیلی؟ عوام کو پوچھنا چاہیے، کون کس نے کیا کیا؟ بچوں کو بتانا چاہیے، بغض اور حسد، گندی زبان اور نفرت نے معاشرے کو گندا کیا۔نواز شریف نے کہا کہ ہمارا ایجنڈا صرف سڑکوں، تعلیم، صحت تک محدود نہیں ہوگا، پاکستان کا سب سے بہترین ہوائی اڈہ گوادر میں مکمل ہونے والا ہے، ہم نے گوادر کا نام اس وقت لیا جب 1990 میں ہم نے حکومت بنائی ۔ان کا کہنا تھا کہ عوام کو بجلی کے مہنگے بلوں سے آزاد کرنا چاہتے ہیں، سولر پینلز کی اسکیم لائیں گے، گھریلو، کمرشل اور زرعی صارفین کو سولر پینلز سے مہنگی بجلی سے نجات دلائیں گے۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے مزید کہا کہ نئے پاکستان میں کیا نیا ہوا؟ہمارے شروع کیے منصوبے بھی رکے رہے، اپنے معاشرے میں تہذیب، شرافت اور شائستگی واحترام واپس لائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی ختم کی، 20، 20 سال منصوبے مکمل نہیں ہوتے تھے، ہم نے مہینوں میں منصوبے مکمل کیے، ہماری حکومت ختم نہ ہوتی تو غربت، پسماندگی، معاشی بدحالی ختم ہوچکی ہوتی۔دوسری جانب چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اندرون سندھ اپنی پارٹی کو مزید مضبوط بنانے کے بعد 16 نومبر سے صوبہ کے پی کے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں جہاں وہ عوامی رابطہ مہم کے تحت ایبٹ آ باد، پشاور اور نوشہرہ میں پیپلز پارٹی کے ورکرز کنڈنشنز سے خطاب کریں گے اس کے بعد وہ گلگت بلتستان کے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں جہاں وہ ہنزہ میں پارٹی کے جلسے سے خطاب کریں گے اور بعد ازاں بلوچستان کے دورے پر روانہ ہو جائینگے جہاں وہ پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کے جلسے سے خطاب کے علاوہ اہم سیاسی شخصیات سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔