معروف صحافی عمران ریاض خان کئی ماہ بعد منظر عام پر آگئے۔عمران ریاض خان اپنے وکیل میاں اشفاق علی کے ہمراہ آج لاہور ہائیکورٹ آئے۔عمران ریاض خان نے لاہور سیشن عدالت میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کی۔ درخواست میں آئی جی پنجاب، ایف آئی اے سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔ایڈیشنل سیشن جج نے آئی جی پنجاب اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف مبینہ کمپین کرنے کے مقدمے میں عمران ریاض کو 28 نومبر تک گرفتار کرنے سے روک دیا۔ رواں برس 9مئی کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کی گرفتاری پر ملک بھر میں پرتشدد مظاہروں کے 2روز بعد صحافی عمران ریاض کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔گرفتاری کے بعد عمران ریاض کو آخری بار تھانہ کینٹ اور بعد ازاں سیالکوٹ جیل لے جایا گیا تھا، انتظامیہ کی جانب سے 15مئی کو عدالت کو بتایا گیا تھا کہ اینکر پرسن کو تحریری حلف نامے کے بعد جیل سے رہا کیا گیا تھا، تاہم تاحال ان کا کچھ پتا نہیں چل سکا۔ بعد ازاں اینکر پرسن کے والد محمد ریاض کی شکایت پر 16مئی کو سیالکوٹ سول لائنز پولیس میں ریاض کے مبینہ اغوا کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی گئی تھی۔ایف آئی آر، تعزیرات پاکستان کی دفعہ 365 کے تحت نامعلوم افراد اور پولیس اہلکاروں کے خلاف مبینہ طور پر عمران ریاض کو اغوا کرنے کے خلاف درج کی گئی تھی۔صحافی کے والد نے بیٹے کی بازیابی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کی تھی۔ 19مئی کو کیس کی سماعت کے دوران اینکر پرسن کے والد نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے تھے اور اس کے اگلے روز لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے پولیس کو 22 مئی تک اینکر پرسن کو بازیاب کر کے پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔13 ستمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ تفتیش درست سمت میں جا رہی ہے اور 10 سے 15 دنوں میں اچھی خبر دیں گے۔20 ستمبر کو ہونے والی گزشتہ سماعت میں لاہور ہائی کورٹ نے عمران ریاض کی بازیابی کے لیے انسپکٹر جنرل (آئی جی)پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کو 26 ستمبر تک کی آخری مہلت دی تھی۔ہ 4ماہ سے زائد عرصے سے لاپتہ عمران ریاض 25 ستمبر کو گھر پہنچے۔