ہم سے مت پوچھو، م ن سے پوچھو

اگرچہ پی ٹی آئی کے رہنما سلمان اکرم راجہ نے کچھ دن پہلے کہا تھا کہ انقلاب کیلئے -4 لاکھ افراد کو سڑکوں پر آنا ہو گا لیکن ’’مرشد‘‘ نے حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اس ہدف میں کمی کی ہے اور ان کی ہمشیرہ محترمہ نے پختونخواہ حکومت کو ہدایت کی ہے کہ 20 ہزار بندے درکار ہیں جو اسلام آباد پر کامیاب چڑھائی کر سکیں۔ پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع سے خبر لیکن یہ آئی ہے کہ گنڈاپور حکومت نے 20 ہزار کا ہدف مشکل قرار دیتے ہوئے محترمہ سے رعایت کی درخواست کی ہے اور کہا ہے کہ دس ہزار کی گنتی پوری کرنے کی ہرممکن کوشش کریں گے اس سے زیادہ تعداد لانا ممکنات میں نہیں ہے۔ 
انقلاب آزادی کا 98 فیصد انحصار پختونخواہ صوبے پر ہے، دو فیصد افراد پنجاب سے آ جانے کی امید ہے۔ پنجاب کے بارے میں بالائی سرکار نے ایک سروے کرایا ہے، بالکل تازہ تازہ، اس میں بتایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت اور اس سے ہمدردی کی عوامی شرح میں ناقابل یقین حد تک کمی آئی ہے، انگریزی میں کہئے تو Drastic کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ برسبیل تذکرہ، پی ٹی آئی کی مقبولیت میں ازحد کمی کا فائدہ کسی اور جماعت کو نہیں پہنچا۔ پنجاب کے شہری علاقوں میں مسلم لیگ ن کی حمایت مزید کم ہوئی ہے اور پیپلز پارٹی کی حمایت بھی 5 فیصد کی سیڑھی پر کھڑی ہے، اس سے اگلی سیڑھی پر ذرا بھی نہیں چڑھی ہے۔ گویا ایک حیرت انگیز خلا پنجاب کے سیاسی میدان میں پیدا ہوا ہے۔ خلا کبھی قائم نہیں رہتا،کوئی دوسری طاقت اسے پْر کرنے کیلئے لپکتی ہے، یہ فزکس کا قائدہ سیاست کے میدان میں بھی لاگو ہوتا ہے لیکن اس بار تو یہ ’’سائنسی اصول‘‘ ٹوٹتا نظر آتا ہے۔ سنجیدہ نظر آنے والے ایک غیر سنجیدہ کالم نگار نے لکھا ہے کہ خلا کو پْر کرنے کیلئے بالائی سرکار نے ایک نئی جماعت قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن ابھی تک کسی ذریعے سے اس کی تصدیق نہیں ہو سکی نہ ہی کوئی شواہد آس پاس، دور و نزدیک نظر آ رہے ہیں۔ ناطقہ سر برگریباں ہے کہ اب کیا ہو گا۔ 
پنجاب میں مسلم لیگ کی حمایت میں کمی وفاقی سرکار کی پالیسیاں ہیں۔ دیہی علاقوں میں مسلم لیگ کی حمایت کا کباڑا کچھ گندم کے بحران نے کیا، رہی سہی کسر زرعی ٹیکس کے نفاذ سے پوری ہو جائے گی جس کے نفاذ میں یہ خیال نہیں رکھا گیا کہ بارانی اور نہری علاقوں میں زرعی آمدنی کا بہت فرق ہے۔ مسلم لیگ کی قیادت کی عدم فعالیت اور عوام سے رابطے کاٹ دینے کے اثرات بھی ہوئے ہیں۔ 
مسلم لیگ ن کے کچھ ذرائع نے یہ شکوہ کیا ہے کہ وفاق میں حکومت ہماری نہیں ہے، اس کی پالیسیوں کی ذمہ داری ہم پر مت ڈالی جائے۔ پوچھا آپ کی نہیں ہے تو پھر کس کی ہے۔ کہنے لگے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت محض پنجاب میں ہے، مرکز میں مسلم لیگ م ن کی حکومت ہے۔ پوچھا، ارے یہ مسلم لیگ م ن کہاں سے آ گئی؟۔ فرمایا، اتنا بھی نہیں جانتے، کہاں کے صحافی ہو۔ اور پھر کہا، ہم سے کیا پوچھتے ہو، محسن نقوی سے پوچھ لو، وہ بتا دیں گے م ن کون ہے۔ 
_______
لندن میں مقیم سفاک  پاکستانی شہری عرفان شریف نے بالآخر اپنی بچی سارہ کو قتل کرنے کا ا عتراف کر لیا۔ سارہ گزشتہ سال قسط وار قتل کی گئی تھی۔ تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ دس سالہ سارہ کو اس کا باپ اور اس کی سوتیلی ماں بینش بتول ہر روز ڈنڈوں، لوہے کے راڈوں سے مارتی، اس کے گلے میں پھندا ڈال کر سانس روک دیتی اور اس سے پہلے کہ وہ مر جائے، پھندا نکال لیتی، جلتے کوئلوں یا استری سے اس کا بدن جلاتی، دانتوں سے کاٹتی۔ ہر روز کی مار سے سارہ کی ہڈیاں اندر سے ٹوٹنے لگیں اور جب اس کی نعش کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تو پتہ چلا کہ جسم کے اندرونی ڈھانچے کی شکل ہی بدل گئی ہے، وہ جگہ جگہ سے ٹیڑھا میڑا ہو چکا ہے۔ اسے چاقو اور چھری سے زخم بھی لگائے جاتے۔ اسے رسیوں اور زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا۔ ابلیس باپ کی ابلیس بیوی بینش اس بچی کی سوتیلی ماں تھی۔ یہ ظلم کئی مہینے سے جاری تھا، آخر ایک دن وہ مر گئی۔ پوسٹ مارٹم نے بتایا، محض اس کی ریڑھ کی ہڈی 11 جگہ سے ٹوٹ چکی تھی۔ اسی طرح دونوں ہاتھ ٹوٹ چکے تھے۔ اسے اوندھا لٹا کر، کپڑے اتار کر بجلی کی استری سے بھی جلایا جاتا۔ 
دس سالہ بچی نے یہ سب کیسے برداشت کیا ہو گا۔ برداشت کرنے کے سوا اس کے پاس راستہ ہی کیا تھا۔ وہ کسے بتاتی کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ وہ تو خود سے پوچھتی ہو گی کہ اس کے ساتھ یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔ ماں تو سوتیلی تھی، سگا باپ بھی اس کا دشمن ہو گیا۔ وہ ایسے علاقے میں تھی کہ اس کی چیخیں سننے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ باپ نے بتایا کہ مرنے سے پہلے اس نے پانی مانگا، مجھے ترس آ گیا اور پانی لے آیا لیکن پانی پلانے سے پہلے ہی وہ مر گئی۔ 
اسی ہفتے لاہور میں ایک 6 سالہ بچے عبدالرحمن کو اس کے سگے باپ نے، اس کی نوجوان سوتیلی ماں کی فرمائش پر ہتھوڑے مار مار کر قتل کر دیا اور اپنی ورکشاپ میں ہی قبر کھود کر دفن کر دیا۔ 6 سالہ عبدالرحمن کی کئی مہینوں سے روزانہ کی بنیاد پر سخت پٹائی ہوتی تھی۔ کبھی باپ مارتا کبھی ماں ، کبھی دونوں۔ ایک دن سوتیلی ماں نے کہا روز روز کا یہ جھمیلا ختم کرو، اسے مار دو، جان چھڑا لو، اور باپ نے مار دیا۔ دفن کئے جانے کے دو روز بعد پولیس کو شک ہوا، سختی سے تفتیش کی، باپ نے اعتراف کر لیا اور تفصیل بتا دی۔ لاش ورکشاپ کھود کر برآمد کر لی گئی۔ 
آج کے اخبار کی خبر ہے کہ عمر کوٹ میں سگے چچا نے اپنے ڈیڑھ اور اڑھائی سال کے دو ننّھے بھتیجوں کو کلہاڑیوں کے وار کر کے قتل کر دیا۔ اور آج ہی کی خبر ہے کہ موسیٰ خیل میانوالی میں باپ نے اپنی بیٹی کو قتل کر دیا۔ چند دن پہلے جھنگ سے خبر آئی کہ ایک شخص خاور شاہ نے اپنی نئی نویلی دلہن یعنی اپنے بچے کی سوتیلی ماں کی خواہش پر اپنے سگے بیٹے خرم شہزاد کی ٹانگ کلہاڑی سے کاٹ کر الگ کر دی۔ لاہور سے ہی ایک خبر یہ آئی کہ جوہر ٹائون میں ایک شخص مظہر نے اپنے 3 ماہ کے بیٹے کو پائوں سے کچل کچل کر ہلاک کر ڈالا۔ شیرخوار بچے کے اس قتل میں ملزم کی بہنوں نے بھی اس سے تعاون کیا۔ گوجرانوالہ کے نزدیک گکھڑ کے مقام پر پانچویں جماعت کی طالبہ، 12 سالہ بچی نے اپنے باپ سے سکول میں خرچے کیلئے پیسے مانگے تو باپ نے گلا گھونٹ کر اسے ہلاک کر دیا۔
بچوں کے قتل میں پاکستان، نیٹ پر دیکھا جائے تو دنیا بھر میں سب سے آگے ہے۔ ان میں وہ بے شمار بچے بھی شامل ہیں جو غربت کی وجہ سے 24 گھنٹے کی گھریلو ملازمت 8 ہزار تنخواہ کیلئے کرتے ہیں اور مالکان انہیں تشدد کر کے قتل کر دیتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے دو ایسی ملازم بہنوں کو ان کے مالکان نے محض اس جرم پر قتل کر دیا کہ انہوں نے کچن سے ایک روٹی چرا کر کھا لی تھی۔ تیسری بہن شدید زخمی ہونے کے بعد بچ گئی تھی، اس نے بتایا کہ مالکان عورتوں نے انہیں رات سے کھانا نہیں دیا تھا اس لئے ان تینوں نے ایک روٹی چوری کر لی، قاتل مالکان عورتیں چند روزہ گرفتاری کے بعد چھوڑ دی گئیں اوپر بیان کئے گئے واقعات میں لندن والے پاکستانی قاتل میاں بیوی کوسزا ہو جائے گی، باقی سب چھوڑ دئیے جائیں گے۔ اس لئے کہ وہ برطانیہ میں پکڑے گئے ہیں ، پاکستان میں سزا نہیں ہوتی۔ یہاں نظام عدل اجتماعی طور پر ظالم کا ساتھ دیتا ہے۔ ساتھ دیتا آیا ہے اور ساتھ دیتا رہے گا۔

ای پیپر دی نیشن