ڈونلڈ ٹرمپ کی بطور صدر امریکا جیت نے دنیا بھر میں سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی حوالے سے کئی نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔ اس کامیابی کا اثر جہاں عالمی تعلقات پر پڑا، وہیں پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک پر بھی اس کے اثرات کو محسوس کیا گیا ہے کیونکہ ماضی میں بھی ٹرمپ جب صدر رہے تو ان کے تعلقات پاکستان کے ساتھ شروع میں کچھ اچھے نہ تھے لیکن بعد ان تعلقات میں عمران خان اور ٹرمپ کہ وجہ سے ڈرامائی تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ ماضی کی طرح اس بار بھی ٹرمپ کی جیت نے دنیا بھر کے ممالک کے لئے خارجی پالیسی، تجارتی معاہدات اور سکیورٹی کے حوالے سے ایک نیا چیلنج کھڑا کیا، اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی، معیشت، اور سلامتی کی صورتحال پر بھی گہرا اثر ڈالا ہے۔
ماضی میں ہم نے دیکھا کہ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد امریکی خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں۔ ٹرمپ نے افغانستان اور جنوبی ایشیا کے حوالے سے ایک جارحانہ پالیسی اپنائی، جس میں پاکستان کو اکثر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ٹرمپ نے پاکستان کو دہشت گردوں کی مبینہ حمایت کے الزام میں امریکی امداد بند کرنے کی دھمکی دی، جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی جیسا کہ کالم کے آغاز میں میں نے بتایا کہ بعد میں ان تعلقات میں حیران کن حد تک تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ماضی میں نے امریکی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے درآمدات پر زیادہ ٹیکس عائد کیے اور ’’سب سے پہلے امریکا‘‘ کی پالیسی کو فروغ دیا، جس کا اثر عالمی تجارت پر پڑا اور اس بار بھی انھوں نے اپنی انتخابی مہم میں معیشت کو اہمیت دی جس کی وجہ سے ان کا دوبارہ صدر کا انتخاب جیتنا انتہائی آسان ہوگیا۔ اب جبکہ وہ دوبارہ صدر منتخب ہو چکیہیں، تو ان کی کامیابی کے اثرات پر بحث شروع ہوچکی ہے۔ ٹرمپ کی دوبارہ صدر بننے کے کیا نتائج ہوں گے، اور ان کی کامیابی سے امریکا اور دنیا کو کس قسم کے چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے، یہ تمام سوالات زیر غور ہیں۔
ٹرمپ کے ابتدائی اقدامات نے بتا دیا ہیان کی پالیسیاں، جو ان کے پہلے دور میں بہت متنازع رہیں، ایک بار پھر زیر عمل آئیں گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی ان کے پہلے دور میں بہت سخت رہی تھی۔ انھوں نے غیر قانونی امیگریشن کو روکنے کے لیے میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانے کی بات کی اور اس کے لیے فنڈنگ کا بھی مطالبہ کیا۔ اس بار انھوں نے پھر عزم کیا ہے کہ وہ پھر سے سخت اقدامات کریں گے۔ اس کا اثر خاص طور پر جنوبی امریکی ممالک سے تعلق رکھنے والے امیگرنٹس پر پڑ سکتا ہے اور امریکا میں موجود تارکین وطن کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
ٹرمپ کے پہلے دور میں انہوں نے امریکی معیشت کو فروغ دینے کے لیے ٹیکس میں کمی اور ملکی صنعتوں کو فروغ دینے پر زور دیا۔ اب کہ بار بھی ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ماضی کی پالیسیوں کو جاری رکھیں گے اور مزید اقدامات کریں گے تاکہ امریکا میں کاروبار کو فروغ ملے اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ تاہم ان کی اقتصادی پالیسیز کے تحت امریکا اور چین کے درمیان تجارتی کشیدگی میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے، جس کا اثر عالمی معیشت پر پڑ سکتا ہے۔ ماضی میں ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں ان کا رویہ زیادہ تر ’’امریکا فرسٹ‘‘ کے اصول پر مبنی رہا ہے۔ وہ نیٹو اور اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں پر امریکا کے اخراجات پر اکثر تنقید کرتے رہے ہیں۔ اور اب بھی ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں کہا تھا کہ اگر وہ جیت گئے تو جتنا حصہ امریکا نیٹو میں ڈالتا ہے اتنا باقی ممالک کو بھی ڈالنا ہو گا وگرنہ امریکا اس اتحاد سے نکل بھی سکتا ہے۔ ٹرمپ نے اپنا ڈیفنس چیف ایک ٹی وی ہوسٹ کو بنا دیا ہے جو اس بات کا واضح اعلان ہے کہ ٹرمپ سے کچھ بھی بعید نہیں وہ ہوسکتا ہے نیٹو کے بارے میں انہوں نے جو کہا تھا اس پر عمل کر ڈالیں۔ اس کے علاوہ، وہ ممکنہ طور پر چین اور ایران جیسے ممالک کے حوالے سے اپنی سخت پالیسی کو برقرار رکھیں گے۔ ان کی چین کے ساتھ جاری کشیدگی، ایران پر پابندیاں، اور روس کے ساتھ تعلقات جیسے مسائل پر ان کے موقف میں مزید شدت آ سکتی ہے کیونکہ ان کی خارجہ پالیسی زیادہ تر امریکی مفادات پر مبنی ہوتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی دوبارہ وائٹ ہائوس میں آمد امریکی سیاست اور عالمی سیاست میں بڑی تبدیلیاں لا سکتی ہے۔ ان کی پالیسیاں امریکا کے لیے تو فائدہ مند ہوسکتی ہیں لیکن عالمی سطح پر بے چینی اور کشیدگی کا خدشہ موجود ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت نے پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں مزید جدت اور حکمت عملی کی پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی قیادت کو امریکا کے علاوہ دیگر بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی غیر متوقع صورتحال کا مقابلہ کیا جاسکے۔پاکستان کے لیے ٹرمپ کی جیت نے یہ پیغام بھی دیا کہ امریکا کے ساتھ تعلقات میں استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کو اپنی داخلی پالیسیاں اور خارجی تعلقات کو زیادہ متوازن رکھنا ہوگا۔