پالیمنٹ سے حال ہی میں پاس ہونے والی26ویں آئینی ترمیم کیساتھ ہی قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی ہر محفل میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔اگر قانون کی حکمرانی کے تصور کے مختلف پہلووں پر بات کی جائے تو ایک تصور الہامی مانا جاتا ہے جو تمام مذاہب میں موجود ہے۔ الہامی کتب کے علاوہ اس تصور کو عام کرنے میں یونانی اور رومن فلاسفرز نے اہم کردار ادا کیا جس میں سقراط کو اس تصور کا بانی خیال کیا جاتا ہے۔ تاہم سائنسی نقطہ نظر سے قانون کی حکمرانی کا تصور حاکم کے اقتدار کی ضد میں ملتا ہے۔اسلامی تاریخ میں قانون کی حکمرانی کا سنگ بنیاد نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی الہ علیہ والہ وسلم نے ریاست مدینہ میں ہی رکھ دیا تھاجس کی آبیاری کرنے میں حضرت عمر نے اہم کردار ادا کیا کیونکہ انکے دور حکمرانی کو نظام عدل کا آئیڈیل دور سمجھا جاتا ہے۔قانون کی حکمرانی کے اس تصور کو عدلیہ کی آزادی کیساتھ جوڑنے میں مسلم مکاتب فکر نے بھی اہم رول ادا کیا یے۔سنی مکاتب فکر کے جیورسٹس امام ابو حنیفہ،امام ابو یوسف،امام مالک،امام شافعی،امام حنبل، اور شیعہ مکاتب فکر میں سے امام جعفر صادق،امام ذید نے عدلیہ کی بالادستی کے تصور کومذید جلابخشی۔
اہل مغرب کے ہاں قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کا تصور سب سے پہلے رومن لاء میں ملتا ہے۔رومیوں نے یورپ کے جن علاقوں میں اپنا نظام قائم کیا ان میں برطانیہ بھی اہم ملک ہے۔امریکہ اور برطانیہ میں انفرادی طور پر کئی ایک جیورسٹس نے بھی قانون کی حکمرانی اور آزاد عدلیہ کے تصور کو آگے بڑھایا جن میں ابراہم لنکن، فرینکلن روزویلٹ،ولیم ہاورڈ لفت،اور جسٹس مارشل نمایاں ہیں ان جیورسٹس نے قانون کی حکمرانی پر پہرہ دیا اور عوام کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا۔برطانیہ کوجدید دنیا میں قانون کی حکمرانی کے تصور کی ماں سمجھا جاتا ہے جہاں سے قانون کی حکمرانی کا تصور مشرق و مغرب میں پھیلا تاہم اگر اس تصور کو برطانیہ اور اسکی قائم کردہ کالونیز میں دیکھا جائے تو واضع تضاد دکھائی دیتا ہے۔ ریاست اور شہریوں کے مابین عمرانی معاہدہ کے تحت جو قانون کی حکمرانی برطانیہ میں شہریوں کو میسر رہی ہے برطانوی کالونیز کیشہری اس سے محروم ہی رہے ہیں۔
متحدہ ہندوستان ہی کی مثال لے لیں جہاں برطانیہ کے قائم کئے گئے نظام عدل میں افراد کے آپس کے معاملات میں تو عدل ہوتا دکھائی دیتا تھا تاہم اس سسٹم میں تاج برطانیہ کے مفادات کے تحفظ کوہر صورت یقینی بنایا گیا تھا جسکی بنیاد ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپریل 1661ء میں ہی ان علاقوں میں رکھ دی تھی جو کمپنی کے زیر تسلط آچکے تھے۔1678ء میں مدراس ہائیکورٹ کاقیام بھی اسی سلسلے کی اہم کڑی تھا تاہم پورے ہندوستان پر برطانوی نظام عدل کا نفاذ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد ملتا ہے جب ایسٹ انڈیا کمپنی سے ہندوستان کا کنٹرول براہ راست تاج برطانیہ کی عملداری میں چلا گیا۔گویا 1857ء سے لیکر 1947ء کے عرصہ کو عدلیہ کی آزادی کا دور نہیں کہا جاسکتا کیونکہ نظام عدل وائسرائے کے مرہون منت رہا ہے جہاں وائسرائے کے سامنے عوام کی حیثیت رعایا کی تھی۔ انہی حالات کے تسلسل میں 14 اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آجاتا ہے۔نوزائیدہ ملک میں قانون کی حکمرانی کو قائم کرنے کیلئے ضروری تھا کہ اس وقت ملکی قیادت علامہ اقبال کے تصور کو سامنے رکھتے ہوئے پسماندہ مسلم عوام کے حقوق کے تحفظ کیلئے فوری طور پر نیا آئین بناتی تاہم 9 سال تک ملک آئین سے محروم رہا اور ہم گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ1935ء کے تحت ہی ملک کا نظام چلاتے رہے۔1956ء میں پہلا آئین بنا 1962ء میں دوسرا آئین تشکیل دیا گیا جبکہ 1973ء میں تیسرا آئین سامنے آیا جس میں پہلی بار بنیادی انسانی حقوق اور عدلیہ کی آزادی کویکجا کیا گیا۔ آئین کے پہلے چالیس آرٹیکلز کو دیکھیں تو عدلیہ عوام کے بنیادی حقوق کی ضامن بن کر سامنے آتی ہے۔
26ویں آئینی ترمیم کے تحت آئین کے آرٹیکلز-175A,184,191اور 199 کو اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی بالا دستی کا تصور مفقود ہوتا نظر آتا ہے۔بات یہی پر ختم نہیں ہوتی بلکہ ججز کے منصب پر فائز ہونے اور پروفیشنل ورک کے دوران بھی پالیمنٹ کی خوشنودی کو دوام بخشنے کی ضرورت آن پڑی ہے کیونکہ ججز کی کارکردگی رپورٹ بہر حال پارلیمنٹیرین (سیاستدانوں) کے ہاتھوں میں آچکی ہے۔
جہاں آئینی ترامیم کیبعد آئینی بنچ کی تشکیل سوالیہ نشان ہے وہاں اسی موقع پر موجودہ ملکی و عالمی چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کیلئے قانون کی حکمرانی کی ضرورت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے جو عدلیہ کی آزادی سے مشروط ہے۔ پاکستان کے پریشان حال شہریوں کی پریشانیوں کا ایک سبب انصاف سے محرومی بھی ہے۔ قانون کی حکمرانی آئین کی بالا دستی اور عدلیہ کی آزادی ہی شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت فراہم کر سکتی ہے۔برطانوی وزیر اعظم چرچل کا مشہور جملہ کسے یاد نہیں۔ جب دوسری عالمی جنگ میں چرچل کو بتایا گیاکہ برطانیہ جنگ ہار رہا ہے تو چرچل نے پوچھا کہ کیا برطانیہ کی عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں؟ بتایا گیاکہ ہاں نظام عدل انصاف فراہم کر رہا ہے تو چرچل نے تاریخی جملہ کہا کہ پھر برطانیہ کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔چرچل کے تاریخی جملے میں عقل و دانش اور فہم و فراست کا بڑا سامان میسر ہے جس سے ہمیں سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ قانون کی حکمرانی ہی سماج کو ٹوٹنے اور بکھرنے سے بچاتی ہے۔ قانون کی حکمرانی سے عوام سرخرو ہوتے ہیں۔قانون کی حکمرانی سماج کو بیلنس رکھتی ہے۔سماجی ناہمواری کا خاتمہ ہوتا ہے تو معشیت کا پہیہ چلتا ہے اور معاشرتی امن و سکون کے باعث مقامی و بیرونی سرمایہ کار ملکی صنعت میں اپنا خاطر خواہ حصہ ڈال سکتے ہیں۔یہ بات ہمارے لیے باعث تشویش ہونی چاہیے کہ معاشرتی افراتفری اور مہنگی بجلی کے باعث آٹھ ہزار سے زائد چھوٹے بڑے صنعتی یونٹس پاکستان سے دوبئی شفٹ ہو چکے ہیں۔ان حالات میں مقامی اور بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کیلئے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ملک کی سیکورٹی کا مسئلہ بھی کسی حد تک قانون کی حکمرانی سے جڑا ہوا ہے تو بے جانہ ہوگا جس میں چینی ماہرین کی سیکورٹی بہت اہم ہے جو کہ ایک حساس معاملہ ہے
اگرچہ قانون کی حکمرانی میں عدلیہ کی آزادی کا اہم رول ہے تاہم نظام عدل کو شفاف بنانے کی ذمہ داری فقط ججز پر ہی نہیں ڈالی جا سکتی بلکہ وکلا,سول سوسائٹی ، سیاسی کارکنان, پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے تیئں اپنا کردار ادا کریں۔