ہفتہ،13جمادی الاول 1446ھ16نومبر 2024

Nov 16, 2024

صوبے کو وزیراعلیٰ کی توجہ چاہئے، پشاور ہائیکورٹ
وزارت اعلیٰ پارٹ ٹائم نہیں بلکہ فل ٹائم جا ب ہے۔ہمارے صوبے جس طرح کیمسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ اس کے لیے تو فل ٹائم بھی کم پڑ جاتا ہے۔ اتنے گمبھیر مسائل ہیں کہ ان کے نمٹنے کے لیے  بڑے حکمرانوں کے پاس دن میں 24 نہیں بلکہ 50 گھنٹے ہونے چاہئیں۔علی امین گنڈاپور کی دیگر صوبوں کے وزرائے  اعلیٰ کے مقابلے میں مصروفیات کچھ زیادہ ہیں۔ان کو کئی مقدمات کا اپنے صوبے کے علاوہ اسلام آباد میں بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔پنجاب پولیس کی اکھیاں بھی ان کو اڈیکتی ہیں۔تحریک انصاف کے یہ سب سے بڑے مرد میدان ہیں۔ جہاں جاتے ہیں کلاشن کوف لہراتے ہیں۔ وہاں خوف وہراس کی داستان چھوڑ آتے ہیں۔پولیس کے پہنچنے تک اگلے شہر پہنچے ہوتے ہیں۔علی امین گنڈا پور ایک کیس کے سلسلے میں پشاور کی عدالت میں پیش ہوئے۔جسٹس صاحبزادہ اسداللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یہ صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں ان کو اور بھی کام کرنے ہوتے ہیں، روزانہ یہ عدالت تو نہیں آسکتے۔ چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ صوبے کو وزیراعلیٰ کی توجہ کی ضرورت ہے، عوام نے ان کو ووٹ دیا ہے جس پر وکیل درخواست گزار نے کہا کہ آج  آئی ایم ایف کے ساتھ اجلاس ہے۔یہ آئی ایم  ایف والی اضافی مصروفیت نکل آئی۔ان کا زیادہ وقت اپنی پارٹی کے جلسے جلوسوں کے پروگرام ترتیب دینے ان کا انتظام کرنے اور کندھے پر کلاشن کوف رکھ کے لیڈ کرنے میں گزر جاتا ہے۔اب وہ پھر 24 نومبر کو ڈی چوک تک پارٹی ورکرز ماسٹروں پٹواریوں کو پہنچانے کے لیے سرگرداں ہیں۔  خیبر پختونخواہ کی گاڑیاں ٹرینیں کرینیں سروس کر کے تیار کی جا رہی ہیں۔24 نومبر کی بانی تحریک انصاف عمران خان کی طرف سے فائنل کال دی گئی ہے پچھلی" فائنل" کال کے موقع پر علی امین گنڈا پور لاؤ لشکر کے ساتھ ڈی چوک کے لب بام پہنچے اور وہاں سے سلیمانی ٹوپی پہن کے فشوں ہوئے اور کئی گھنٹوں بعد پشاور میں اسمبلی کے اجلاس کے دوران نمودار ہوئے تھے۔
زر مبادلہ کے ذخائر 15 ارب 96 کروڑ ڈالر سے بڑھ گئے
جب اللہ دینے پہ آتا تو چھپڑ پھاڑ کے بھی دیتا ہے۔یہ مثال پہلے تو سن رکھی تھی، آج اس کی عملی شکل نظر آرہی ہے۔پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے وزیراعظم شہباز شریف  ملکوں ملکوں گھوم رہے ہیں۔ان ممالک کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ کر رہے ہیں۔باکو میں ہونے والی کوپ 29 کانفرنس میں وزیراعظم شہباز شریف نے عالمی برادری سے چھ ہزار ارب ڈالر کا فنڈ قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔اس فنڈ سے کلائیمیٹ چینج  کیچیلنج سے نمٹا جا سکے گا۔عالمی سطح پر پھیلنے والی آلودگی میں پاکستان کا آدھے فیصد سے بھی کم  حصہ ہے جبکہ متاثرہ ممالک میں پاکستان سر فہرست ہے۔اس فنڈ کی منصفانہ تقسیم ہوتی ہے تو پاکستان کے حصے میں جتنے ڈالر آئیں گے۔وہ کیش کی صورت میں ہوں گے تو کئی کنٹینر بھر کے لانے پڑیں گے۔ہماری طرح ڈالر اور یورو کا پانچ ہزار کا نوٹ نہیں ہے۔ ڈالر کا آج بھی بڑا نوٹ سو کا ہے۔سعودی عرب قطر کویت متحدہ عرب امارات کی طرف سے پاکستان کے لیے 25 پچیس ارب ڈالر کی امداد دینے کے وعدے کیے گئے ہیں۔گزشتہ دنوں چند دوست ممالک نے پاکستان میں 27 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کے بھی وعدے کیے ہیں۔ آئی ایم ایف سے تازہ تازہ سات ارب ڈالر کا معاہدہ ہوا ہے جس کی پہلی قسط مل گئی ہے۔ ابھی یہ خرچ نہیں ہوئے کہ  آئی ایم ایف کی ٹیم مزید پر کشش پیشکشیں لے کے پاکستان میں پہنچی ہوئی ہے۔اس کی شرائط ایسی ہیں جس سے حکومت کے لیے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔پریشانی  تو ان لوگوں کو ہوگی جن کی چمڑی اتار کر دمڑی دمڑی اکٹھی کرنی ہے۔اب امید یہ پیدا ہوئی ہے کہ حکومت جس کے پاس کلائمیٹ فنڈ کی صورت میں اربوں ڈالر آنے لگے ہیں وہ آئی ایم ایف کی ٹیم کو ٹھینگا دکھا کر فارغ کر دے گی اور اس فنڈ سے حکومت سارے قرضے اتار کر اس کے بعد بچ جانے والے ڈھیروں ڈالر عوام کی ترقی خوشحالی بجلی پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں ریلیف دے سکے گی۔
موٹروے پر گورنر پنجاب کی گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا
حادثات ہوتے رہتے ہیں مگر ان کا کوئی نہ کوئی سبب ضرور ہوتا ہے۔کبھی ڈرائیور کی غلطی سے حادثہ ہو جاتا ہے۔ گاڑی میں ٹیکنیکل فالٹ آسکتا ہے۔کوئی ٹرانسپورٹ یا چیز اچانک سامنے آ سکتی ہے۔ٹائر پھٹنے سے حادثہ ہو تو اس کی دوتین ہی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ٹائر کا کمزور ہونا ،شدید گرمیوں میں گرمی یا کیل کنکر لگ جانے  سے ٹائر پھٹ سکتا ہے۔
گورنر پنجاب سلیم حیدر کی گاڑی کو موٹر وے ایم ٹو پر ٹائر پھٹنے سیحادثہ پیش آیا ہے جس میں تمام سوار گورنر سمیت محفوظ رہے۔گاڑی کو بھی کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا۔صاحب لاہور سے اسلام آباد جا رہے تھے۔لگتا تو یہی ہے کہ وہ سرکاری گاڑی میں ہوں گے اوپر گورنر کا فلیگ بھی لہرا رہا ہوگا۔ظاہر ہے فلیگ سے عام لوگوں پر رعب داب پڑتا ہے۔ ٹائر کی گردن اور نظر نیچے ہوتی ہے اس کو تو فلیگ نظر نہیں آ رہا ہوتا۔سردار صاحب کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے وہ کوٹے کے تحت پنجاب میں مسلم لیگ نون کی حکومت کے دوران گورنر بنائے گئے ہیں۔مرکز میں مسلم لیگ نون کی حکومت پیپلز پارٹی کے اتحاد بلکہ دم قدم سے آ باد ہے۔جب کہ مسلم لیگ نون کو پیپلز پارٹی کی پنجاب میں ضرورت نہیں ہے۔پیپلز پارٹی کا گورنر بھی بادل نخواستہ مرکز میں اپنی حکومت کو آکسیجن بہم پہنچانے  کے لیے قبول کیا گیا ہے۔مسلم لیگ نون کی یہ مجبوری نہ ہوتی تو آج بھی بلیغ الرحمٰن گورنر ہوتے۔سردار سلیم حیدر پنجاب حکومت کے ساتھ کم ہی بنا کے رکھتے ہیں۔مگر ان کی صوبائی حکومت کے ساتھ اتنی بھی ان بن نہیں ہے جتنی گورنر سلیمان تاثیر کی شہباز شریف کی حکومت کے ساتھ ہوا کرتی تھی۔انہوں نے پنجاب میں اپنا مقدس فریضہ انجام دیتے ہوئے گورنر راج بھی لگا دیا تھا۔مسلم لیگ نون کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے پورا زور لگایا تو صرف مقدس نامی ایک ایم پی اے ہی ٹوٹ کر پیپلز پارٹی کے ساتھ آملی تھیں۔ آج حالات ایسے ہیں کہ سردار صاحب گورنر راج تو کیا لگائیں گے اپنی مرضی کا وی سی بھی نہیں لگا سکتے۔ سردار سلیم حیدر کو حکومت پنجاب کی طرف سے کون سی گاڑی دے دی گئی جس کا ٹائر برسٹ ہو گیا۔گاڑی ان کے حوالے کرنے والے شاید یہ بتانا بھول گئے کہ سپیڈ 70 کلومیٹر سے اوپر لے جانا خطرناک ہو سکتا ہے۔
وزیر اعلیٰ بھگت مان کا مخولیہ رد عمل سامنے آگیا
آج سموگ نے ہر کسی کا گھر دیکھ لیا ہے۔ امیر،غریب، بچے، جوان، بوڑھے، مرد، عورتیں حتیٰ کہ سموگ کی ابتلا سے گھر بھی محفوظ نہیں۔ ہر کسی کی آنکھوں ناک اور کانوں میں سموگ گھستی چلی جا رہی ہے۔ ہر تیسرے فرد کے گلے کو سموگ نے جکڑ لیا ہے۔ کل لوگ فوگ یعنی دھند سے تنگ تھے، آج کہتے ہیں سموگ سے دھند اچھی ہے۔ خیر ابھی تو دونوں میں سے کوئی بھی نہیں مگر مقابلتاً بات کی جاتی ہے۔ جیسے کسی کم سننے والے سے کسی نے پوچھ لیا:اللہ تیری سماعت لوٹا دے تو؟۔ اس نے کہا الحمدللہ۔ اگلا اس کا سوال تھا وہ بھی پورا زور لگا کر اونچی آواز میں پوچھا گیا۔ تیری سماعت واپس آجائے تو بہرہ نہ رہے۔ اس کے بدلے اندھا ہو جائے تو قبول ہے؟اس  پر سوال کرنے والے کو طیش سے دیکھاا ور کہا دفعہ ہو جا منحوس مارا۔ ایسے ہی سموگ سے دھند بہتر ہے۔ اگر آپشن ہوتو؟۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز نے کہا تھا کہ وہ بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو خط لکھیں گی کہ اس بلا پر مل کر کوئی حکمت عملی بنائیں۔ وہیں سے دھواں آتا ہے اس پر بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے کہا اور جس انداز میں کہا جس لہجے میں کہا سننے والے ہنس ہنس کے دہرے ہوگئے۔ چند لمحات وہ بھول گئے کہ ہنسنے سے ’’ہواڑ‘‘ باہر جاتی ہے اور سموگ اندر آتی ہے۔ وزیر اعلیٰ بھگت مان نے کہا کہ پاکستان میں پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم  کہتی ہیں کہ میں خط لکھوں گی کہ آپ کا دھواں لاہور آتا ہے۔دوسری جانب دہلی والے کہتے ہیں کہ تمہارا دھواں دہلی آتا ہے، تو کیا ہمارا دھواں "گیڑے" (چکر) لگاتا رہتا ہے؟ کبھی ادھر کبھی ادھر چلا گیا۔

مزیدخبریں