اسلامی معاشرے کے عوامل (2)

اللہ تعالی نے حسن عمل اور احسان کاری کی بنیاد تعاون علی البرو التقوی پر رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہی اور فلاح کے کاموں کو اصل دین قرار دیا۔ اس طرح سے انسان کو ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی ، غم خواری اور خیر طلبی کی اہمیت کھل کر واضح ہو جاتی ہے۔ اس لیے فرمایا گیا : ’’دین تو بس خیر خواہی کا نام ہے ‘‘۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد سب سے بڑا دانشمندانہ کام لوگوں کی خیر خواہی کا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں فلاح و بہبود کا عملی مظاہرہ پیش کیا جس کی مثال نہیں ملتی اور نہ ہی قیامت تک ایسی کوئی مثال ملے گی۔ ایک مرتبہ حضور نبی کریم ﷺ نے بیت اللہ کی دہلیز پکڑ کر ارشاد فرمایا کہ تو مجھے بہت عزیز ہے کیونکہ تو اللہ تعالیٰ کا گھر ہے لیکن تجھ سے عزیز مجھے وہ دل ہے جس میں ایمان بستا ہے۔ حضور نبی کریمﷺ نے ارشادفرمایا : اپنے درمیان سلام کو عام کرو ، خون کے رشہ داروں کو ملائو ، ضرورت مندوں کو کھلائو اور جب رات کو لوگ سو رہے ہوں تو اٹھ کر نماز میں مشغول ہو جائو تو تم سلامتی اور خیر کے ساتھ جنت میں داخل ہو جائو گے۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نے مجھے 9 باتوں کی تلقین کی ہے۔میں چھپ کر اور کھلے عام ہر حال میں اخلاص سے کام لوں ، خوشی اور غصہ دونوں حالتوں میں عدل وانصاف کا دامن نہ چھوڑوں ، امیری اور فقیری دونوں میں میانہ روی اور اعتدال سے کام لوں ، جس نے مجھ سے زیادتی کی ہو اس سے درگزر کروں اور جو مجھ سے چھینے، میں اس کو عطا کروں ، جو مجھ سے تعلق توڑے میں اس کے ساتھ تعلق جوڑوں، میری خاموشی غوروفکر کے لیے ہو اور میرا بولنا اللہ کے ذکر کے لیے ہو اور میرا دیکھنا حصول عبرت کی خاطر ہو۔ حضور نبی کریم ﷺ کے یہ 9 ارشادات حسن معاشرت کی جان ہیں اور حضور نبی کریم ﷺ کی حکمت حسن معاشرت بھی ان ہی فرامین پر منحصر ہے۔ نیک نیتی اور اخلاص ، انصاف ، میانہ روی ، عفو و درگذر ، صلہ رحمی ، حمد و ذکر ، نصیحت و عبرت زندگی میں وہ استحکام پیدا کر دیں گے جس کے متعلق نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ کہ ایمان والے آپس کی محبت اور دوستی کی وجہ سے ایک جسم کی مانند ہیں۔ جب جسم کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم اسے محسوس کرتا ہے۔ حسن معاشرت کے چند ایک اصول ہیں جن پر عمل کر کے ہم اپنے معاشرے کو امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن